وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
اور اگر اللہ تم کو کوئی تکلیف پہنچائے تو بجز اس کے اور کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تم کو کوئی خیر پہنچانا چاہیے تو اس کے فضل کا کوئی ہٹانے والا نہیں (١) وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاور کر دے اور وہ بڑی مغفرت بڑی رحمت والا ہے۔
وَ اِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَ ....: عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں، میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے (سوار) تھا، آپ نے فرمایا: (( يَا غُلاَمُ ! إِنِّيْ أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ احْفَظِ اللّٰهَ يَحْفَظْكَ، احْفَظِ اللّٰهَ تَجِدْهٗ تُجَاهَكَ، إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللّٰهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلَی أَنْ يَنْفَعُوْكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوْكَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللّٰهُ لَكَ، وَ إِنِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ يَضُرُّوْكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوْكَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللّٰهُ عَلَيْكَ، رُفِعَتِ الأَقْلاَمُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ )) [ ترمذی، صفۃ القیامۃ، باب : ۲۵۱۶ ۔ مسند أحمد :1؍293، ح :۲۶۷۳، و صححہ الأئمۃ ]’’اے لڑکے! میں تمھیں چند باتیں سکھاتا ہوں، تو اللہ کا دھیان رکھ وہ تیرا دھیان رکھے گا، تو اللہ کا دھیان رکھ تو تو اسے اپنے سامنے پائے گا اور جب تو مانگے تو اللہ سے مانگ اور جب مدد مانگے تو اللہ سے مدد مانگ اور جان لے کہ بے شک اگر سارے لوگ جمع ہو جائیں کہ تجھے کسی چیز کا فائدہ پہنچائیں تو اس چیز کے سوا نہیں پہنچا سکیں گے جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ دی ہے اور اگر وہ سب جمع ہو جائیں کہ تجھے کسی چیز کا نقصان پہنچائیں تو اس کے سوا تجھے نقصان نہیں پہنچا سکیں گے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر لکھ دی ہے، قلم اٹھا لیے گئے اور صحیفے خشک ہو گئے۔‘‘ بعض اہل علم نے فرمایا کہ قرآن مجید کی تین آیات پر اگر کوئی محکم یقین کرلے تو ان شاء اللہ مخلوق سے مستغنی ہو جائے گا، ایک تویہ آیت، دوسری : ﴿ مَا يَفْتَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَاوَ مَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ﴾ [ فاطر : ۲ ] ’’جو کچھ اللہ لوگوں کے لیے کسی بھی رحمت میں سے کھول دے تو اس کے بعد کوئی بند کرنے والا نہیں اور جو اللہ بند کر دے اسے اس کے بعد کوئی کھولنے والا نہیں اور وہی سب پر غالب کمال حکمت والا ہے۔‘‘ اور تیسری : ﴿ وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَ يَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَا ﴾ [ ہود : ۶ ] ’’اور زمین میں کوئی چلنے والا (جان دار) نہیں، مگر اس کا رزق اللہ ہی پر ہے اور وہی اس کے ٹھہرنے کی جگہ اور اس کے سونپے جانے کی جگہ کو جانتا ہے۔‘‘ بیہقی نے شعب الایمان میں عامر بن قیس کا قول نقل کیا ہے کہ قرآن کی تین آیتوں نے مجھے سارے جہان سے بے نیاز کر دیا، پھر اوپر والی تین آیات ذکر فرمائیں۔ اس اثر کی سند تو کمزور ہے مگر آیات کے مضمون کے لحاظ سے اصل بات بلاشک و شبہ درست ہے۔