قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي شَكٍّ مِّن دِينِي فَلَا أَعْبُدُ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِنْ أَعْبُدُ اللَّهَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
آپ کہہ دیجئے (١) کہ اے لوگو! اگر تم میرے دین کی طرف سے شک میں ہو تو میں ان معبودوں کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو (٢) لیکن ہاں اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہاری جان قبض کرتا ہے (٣) اور مجھ کو یہ حکم ہوا ہے کہ میں ایمان لانے والوں میں سے رہوں۔
قُلْ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ شَكٍّ ....: شک کا معنی یہ ہے کہ ذہن میں کسی چیز کے حق ہونے یا ناحق ہونے کا برابر امکان ہو، اگر اس کی ذ ہنی کیفیت کو ترازو میں تولا جائے تو وہ اسے نہ حق کہہ سکے نہ باطل۔ اب دنیا کے تمام لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا ’’اِنْ ‘‘ اگر تمھیں میرے دین کے بارے میں کوئی بھی شک ہے۔ ’’اگر‘‘ کا لفظ بتاتا ہے کہ شک کی گنجائش تو نہیں لیکن فرض کرو کہ تمھیں اس میں کوئی شک ہے تو میرا اعلان سن لو کہ میں ایک اللہ کے سوا تمھارے معبودوں میں سے کسی کی عبادت نہیں کرتا۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اللہ کی عبادت سے پہلے تمام باطل معبودوں کا انکار کیا گیا ہے، جیسے ﴿قُلْ يٰۤاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ ﴾ میں ہے، پھر صرف ایک اللہ کی عبادت کا اعلان کیا گیا اور ساتھ ہی اس کی دلیل ذکر فرما دی : ﴿الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ ﴾ ’’وہ جو تمھاری روح قبض کرتا ہے۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ زمر (۴۲) کوئی اور معبود یہ کام کرتا ہو تو سامنے لاؤ۔ ساتھ ہی اس میں دھمکی بھی ہے کہ اگر تم شرک پر قائم رہے تو اس اللہ کو کیا جواب دو گے جو تمھاری روح قبض کرتا ہے اور ہر حال میں تمھیں اسی کے پاس جانا ہے، پھر وہ تم سے نمٹ لے گا اور مجھے تو یہی حکم ہے کہ میں مومن بن کر رہوں اور اپنی پیشانی اس کے سوا کسی کے سامنے نہ جھکاؤں، لہٰذا میری اور تمھاری راہ ایک دوسرے سے سراسر مختلف ہے۔