فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ
چنا نچہ کوئی بستی ایمان نہ لائی کہ ایمان لانا اس کو نافع ہوتا سوائے یونس (علیہ السلام) کی قوم کے (١) جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے رسوائی کے عذاب کو دنیاوی زندگی میں ان پر سے ٹال دیا اور ان کو ایک وقت (خاص) تک کے لئے زندگی سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا۔
1۔ فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْيَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِيْمَانُهَا ....: یعنی کوئی ایسی بستی کیوں نہ ہوئی جو رسول کے عذاب سے ڈرانے پر ڈر جاتی اور عذاب آنے سے پہلے ایمان لے آتی، پھر اس کا ایمان اسے نفع دیتا، مگر ایسی کوئی بستی بھی نہ ہوئی، سب اس وقت ہی ایمان لائے جب ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آ گیا، سوائے یونس علیہ السلام کی قوم کے کہ یونس علیہ السلام کے کئی سال دعوت دینے کے باوجود جب وہ ایمان نہ لائے تو یونس علیہ السلام نے ان پر عذاب کے لیے بددعا کی اور انھیں آگاہ کر دیا کہ تم پر عذاب آنے ہی والا ہے اور خود وہاں سے ناراض ہو کر نکل گئے۔ دیکھیے سورۂ انبیاء (۸۷) اور صافات (۱۴۰) قوم جانتی تھی کہ یونس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، ان کے نکل جانے سے وہ مزید ڈر گئے، اس لیے عذاب آنے سے پہلے ہی پوری بستی نے نہایت عاجزی کے ساتھ کفر سے توبہ کی اور یونس علیہ السلام پر ایمان لے آئے، اب یہ ایمان چونکہ بروقت تھا، عذاب دیکھنے سے پہلے تھا، اس لیے اس ایمان نے انھیں یہ نفع دیا کہ ان سے عذاب ہٹا لیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کی طبعی عمر تک دنیا کی زندگی سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا۔ سورۂ صافات کی آخری آیات میں بھی ان کے ایمان لانے اور اس کے نافع ہونے کا ذکر ہے۔ 2۔ یہ کفار قریش اور اہل کتاب کو تنبیہ ہے کہ تمھیں یونس علیہ السلام کی قوم سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور عذاب سے پہلے ایمان لے آنا چاہیے، نہ کہ آل فرعون اور دوسری برباد ہونے والی قوموں کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔ 3۔ تفسیر قاسمی میں ہے کہ یہ بات کہ عذاب کے بادل پہنچ گئے تھے، اندھیرا چھا گیا تھا، پھر انھوں نے توبہ کی، قرآن و حدیث میں کہیں مذکور نہیں اور نہ ہی عذاب آنے کے بعد ٹلتا ہے۔