وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ كَأَن لَّمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ يَتَعَارَفُونَ بَيْنَهُمْ ۚ قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ
اور ان کو وہ دن یاد دلائیے جس میں اللہ ان کو (اپنے حضور) جمع کرے گا (تو ان کو ایسا محسوس ہوگا) کہ گویا وہ (دنیا میں) سارے دن کی ایک آدھ گھڑی رہے ہونگے (١) اور آپس میں ایک دوسرے کو پہچاننے کو ٹھہرے ہوں (٢)۔ واقعی خسارے میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے پاس جانے کو جھٹلایا اور وہ ہدایت پانے والے نہ تھے۔
1۔ وَ يَوْمَ يَحْشُرُهُمْ كَاَنْ لَّمْ يَلْبَثُوْا ....: ’’سَاعَةً ‘‘ ایک گھڑی، عرب نہایت کم مدت کے لیے یہ لفظ بولتے ہیں۔ قیامت بھی چونکہ ایک لمحے میں قائم ہو جائے گی، اس لیے اس پر بھی ’’اَلسَّاعَةُ‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے، یعنی اس دن کو یاد کرو جب اللہ تعالیٰ ان حق سے اندھے اور بہرے لوگوں کو حساب کے لیے اکٹھا کرے گا تو انھیں دنیا میں گزری ہوئی راحت و لذت والی لمبی مدت اور طویل ماہ و سال ایک گھڑی محسوس ہوں گے اور انھیں وہ سب لذتیں بھول جائیں گی، جیسا کہ سورۂ احقاف (۳۵) اور سورۂ روم (۵۵) میں ہے کہ مجرم قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم ایک ساعت (لمحے) کے سوا دنیا میں نہیں رہے۔ 2۔ سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ : دن کی گھڑی چونکہ رات کی بہ نسبت زیادہ یاد رہتی ہے، اس لیے ’’مِنَ النَّهَارِ ‘‘ فرمایا۔ 3۔ يَتَعَارَفُوْنَ بَيْنَهُمْ : اس کی دو تفسیریں ہیں، ایک تو یہ کہ دنیا میں ان کی وہ گھڑی بھی ایک دوسرے کی جان پہچان کرتے گزر گئی اور دوسری یہ کہ قیامت کے دن وہ ایک دوسرے کو پہچانیں گے اور آپس میں ایک دوسرے کو گمراہ کرنے پر ملامت اور گلے شکوے کریں گے۔ 4۔ قرآن مجید کی بعض آیات میں ہے کہ وہ کہیں گے کہ ہم تو محض ایک دن یا دن کا کچھ حصہ دنیا میں رہے ہیں، جیسا کہ سورۂ مومنون (۱۱۲، ۱۱۳) میں ہے، یا یہ کہ ہم ایک سہ پہر یا دو پہر وہاں رہے ہیں۔ دیکھیے سورۂ نازعات (۴۶) یا یہ کہ ہم تو صرف دس راتیں وہاں رہے ہیں۔ دیکھیے سورۂ طٰہٰ (۱۰۳) اب ایک گھڑی رہنے اور ان آیات میں کیا تطبیق ہو گی، جواب یہ ہے کہ مجرموں کے درجات اور احوال مختلف ہونے کی وجہ سے ان کے اندازے بھی مختلف ہوں گے۔ اسی طرح قیامت کا دن پچاس ہزار سال کی انتہائی لمبی مدت کا دن ہے (دیکھیے معارج : ۴) جس میں مجرموں پر مختلف احوال گزریں گے، اس میں ہونے والی ان کی باہمی بحثوں کا نتیجہ وہ کبھی کچھ نکالیں گے اور کبھی کچھ نکالیں گے۔ یہ بھی ان کی بدحالی کا ایک اظہار ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ لَوْ تَرٰۤى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ يَرْجِعُ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضِ الْقَوْلَ ﴾ [ سبا : ۳۱] ’’اور کاش! تو دیکھے جب یہ ظالم اپنے رب کے پاس کھڑے کیے ہوئے ہوں گے، ان میں سے ایک دوسرے کی بات رد کر رہا ہو گا۔‘‘ 5۔ قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا ....: اللہ کی ملاقات جھٹلانے کا مطلب قیامت اور حساب کتاب کا انکار ہے اور خسارا یہ کہ دنیا میں بھی حیوانوں کی سی بے اصولی زندگی بسر کی اور آخرت میں بھی جہنم کا ایندھن بنے۔