سورة یونس - آیت 21

وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُمْ إِذَا لَهُم مَّكْرٌ فِي آيَاتِنَا ۚ قُلِ اللَّهُ أَسْرَعُ مَكْرًا ۚ إِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور جب ہم لوگوں کو اس امر کے بعد کہ ان پر کوئی مصیبت پڑچکی ہو کسی نعمت کا مزہ چکھا دیتے ہیں (١) تو وہ تو فوراً ہی ہماری آیتوں کے بارے میں چالیں چلنے لگتے ہیں (٢) آپ کہہ دیجئے کہ اللہ چال چلنے میں تم سے زیادہ تیز ہے (٣) بالیقین ہمارے فرشتے تمہاری سب چالوں کو لکھ رہے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِذَا لَهُمْ مَّكْرٌ فِيْ اٰيَاتِنَا : یعنی جب ہم لوگوں کو بیماری کے بعد شفا، قحط کے بعد خوش حالی، جنگ کے بعد امن یا انھیں پہنچنے والی کسی بھی تکلیف کے بعد اپنی کسی رحمت کی لذت چکھاتے ہیں تو ہمارے شکر گزار ہو کر ہماری توحید اور ہمارے رسول کی رسالت ماننے کے بجائے اسے جھٹلانے اور اس کا مذاق اڑانے کی کوئی نہ کوئی چال اختیار کرتے ہیں۔ ’’مکر‘‘ کا معنی خفیہ تدبیر ہے، جو شر کے لیے ہو، یہ لفظ کبھی خیر کے لیے بھی استعمال ہو جاتا ہے، یا مقابلے میں بول لیا جاتا ہے۔ کفار کی اس عادت کی مثال فرعون کا پے در پے معجزے دیکھ کر انھیں جادو کہہ کر ایمان لانے سے انکار ہے۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۱۳۰ تا ۱۳۶) انسان کی اس عادت کا تذکرہ سورۂ زمر (۸)، ہود (۱۰) اور اعراف (۹۵) میں بھی کیا گیا ہے۔ قُلِ اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًا: اللہ کی چال سے مراد وہ سزا ہے جو وہ مشرکین کو ان کی مکاریوں اور چال بازیوں پر دیتا ہے اور وہ ہے اس کا انھیں ان کی باغیانہ روش پر چھوٹ دینا اور انھیں اپنے رزق اور نعمتوں سے نوازتے رہنا، تاکہ وہ جی بھر کر اپنا نامۂ اعمال سیاہ کرتے رہیں۔ اِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ : یعنی جب تمھارا نامۂ اعمال خوب سیاہ ہو جائے گا تو اچانک موت کا پیغام آ جائے گا اور تم اپنے اعمال کا حساب دینے کے لیے دھر لیے جاؤ گے۔ شاہ عبد القادررحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’سختی کے وقت آدمی کی نظر اسباب سے اٹھ کر اللہ پر رہتی ہے، جب کام بن گیا تو لگا اسباب پر نگاہ رکھنے۔ سو ڈرتا نہیں کہ اللہ پھر کوئی سبب کھڑا کر دے اسی تکلیف کا، سب اسباب اس کے ہاتھ میں (ہر وقت) تیار ہیں، ایک اسی کی صورت آگے اور فرمائی۔‘‘ (موضح)