سورة التوبہ - آیت 122

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور مسلمانوں کو یہ نہ چاہیے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وہ ان کے پاس آئیں، ڈرائیں تاکہ وہ ڈر جائیں (١)۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَآفَّةً....: ’’ نَفَرَ يَنْفِرُ ‘‘ عام طور پر لڑائی کے لیے نکلنے کے معنی میں آتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ مَا لَكُمْ اِذَا قِيْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ ﴾ [ التوبۃ : ۳۸ ] اور فرمایا : ﴿ اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا ﴾ [ التوبۃ : ۴۱ ] اور فرمایا : ﴿ اِلَّا تَنْفِرُوْا يُعَذِّبْكُمْ ﴾ [ التوبۃ : ۳۹ ] اور فرمایا : ﴿ وَ قَالُوْا لَا تَنْفِرُوْا فِي الْحَرِّ ﴾ [ التوبۃ : ۸۱ ] اور یہ سورت شروع سے آخر تک جہاد ہی کے تذکرے سے بھری پڑی ہے، اس لیے ’’لِيَنْفِرُوْا ‘‘ کا معنی ’’لڑائی کے لیے نکلیں‘‘ ہی سیاق سے مناسبت رکھتا ہے۔ جنگ تبوک میں نفیر عام، یعنی تمام مسلمانوں کو نکلنے کا حکم تھا اور فرمایا کہ اہل مدینہ اور اس کے اردگرد کے اعراب کا حق ہی نہیں بنتا تھا کہ وہ جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہیں، اب اس آیت میں ایسے مواقع کا ذکر ہے جن میں سب کے نکلنے کا حکم نہیں، بلکہ کچھ لوگوں کا نکلنا کافی ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ تمام مسلمان جنگ کے لیے نکل جائیں، کیونکہ کچھ لوگوں کا شہروں کی حفاظت اور گھروں کے انتظام کے لیے پیچھے رہنا بھی ضروری ہے، کچھ لوگ کسی اور ضروری عذر کی وجہ سے نہیں نکل سکتے، اس لیے ہر بڑے گروہ میں سے جنگ کی ضرورت کے حساب سے کچھ لوگوں کے لیے لازم ہے کہ جہاد کے لیے نکلیں، تاکہ وہ جہاد کے سفر، اس کے درمیان پڑاؤ، رباط کے دوران اور میدان قتال میں پوری کوشش کے ساتھ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈرائیں کہ دشمن کیا کیا منصوبے بنا رہا ہے اور اس کی تیاری کس قدر ہے اور اس سے نمٹنے کی کیا صورت ہے، تاکہ وہ آئندہ کے لیے مکمل تیاری کرکے دشمن پر فتح یاب ہو سکیں۔ ’’تفقه في الدين‘‘ سے یہاں مراد یہ ہے جو بیان ہوا، جب کہ اس وقت ہمارے ہاں ’’تفقہ فی الدین‘‘ صرف نماز، روزے وغیرہ کے مسائل ہی کو سمجھ لیا گیا ہے، دشمن کے منصوبوں، سازشوں، چالوں اور کار روائیوں کو سمجھنے، ان سے بچنے اور دفاع کے بجائے ان پر حملہ آور ہونے کو ’’تفقہ فی الدین‘‘ سے باہر قرار دے دیا گیا ہے۔ اس آیت سے چند باتیں واضح طور پر سمجھ میں آ رہی ہیں : (1) ہر جنگ میں تمام مسلمانوں کا نکلنا نہ ضروری ہے نہ ممکن، بلکہ تقسیم کار کے اصول پر عمل ہو گا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنولحیان کی طرف ایک لشکر بھیجتے ہوئے فرمایا : ’’ہر دو آدمیوں میں سے ایک آدمی نکلے اور اجر دونوں کے لیے برابر ہے (تاکہ ایک میدان میں جائے اور دوسرا اپنے اور اپنے بھائی کے پیچھے کے معاملات کی خیر کے ساتھ نگرانی کرے)۔‘‘ [ مسلم، الإمارۃ، باب فضل إعانۃ الغازی....:138؍1896 ] ہاں، اگر ضرورت کی بنا پر امیر نفیر عام کا حکم دے تو سب کا نکلنا ضروری ہو گا۔ (2) فرقہ بڑا ہوتا ہے اور طائفہ چھوٹا، حتیٰ کہ ایک آدمی پر بھی طائفہ کا لفظ بولا جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اِنْ طَآىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا ﴾ [ الحجرات : ۹ ] یہ آیت دو لڑنے والے آدمیوں کے لیے بھی ہے، کسی گروہ میں سے جنگ کے لیے زیادہ لوگ نکلیں یا ایک آدمی، سب پر طائفہ کا لفظ صادق آتا ہے۔ (3) ’’ لِيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ ‘‘ تفقہ باب تفعل سے ہے، مراد کوشش اور محنت کے ساتھ اچھی طرح سمجھ حاصل کرنا ہے۔ یہاں دین کے دو معنی مراد ہو سکتے ہیں، ایک تو قتال فی سبیل اللہ یعنی اللہ کے راستے میں لڑنا، جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب تم عینہ (حیلے کے ساتھ سود کی ایک صورت) کے ساتھ بیع کرنے لگو گے اور کھیتی باڑی پر خوش ہو جاؤ گے اور جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط کرے گا جسے دور نہیں کرے گا ((حَتّٰی تَرْجِعُوْا اِلٰی دِيْنِكُمْ )) ’’یہاں تک کہ تم اپنے دین کی طرف واپس پلٹ آؤ۔‘‘ [أبوداؤد، البیوع، باب فی النھی عن العینۃ : ۳۴۶۲، و صححہ الألبانی ] یہاں دین سے مراد قتال فی سبیل اللہ ہے، اس میں تفقہ جنگ کے میدانوں ہی میں حاصل ہو سکتا ہے۔ سو سال تک شیخ الحدیث کی مسند پر بیٹھے رہیں کبھی یہ تفقہ حاصل نہیں ہو گا، آپ اپنے گھر یا سکول یا کالج یا یونیورسٹی یا اکیڈمی یا دار العلوم میں جتنی بھی جنگی کتابیں اور دشمن کی چالیں پڑھ لیں، یا غازیان اسلام کے معرکے پڑھ لیں، میدان جنگ میں جائے بغیر دین (جنگ) کی حقیقی اور واقعی سمجھ کسی صورت حاصل نہیں ہو سکتی، نہ ہی آدمی اپنی قوم کو دشمن کے خطرے سے صحیح طور پر ڈرا کر اس سے بچنے کے لیے خبردار کر سکتا ہے۔ دین کا دوسرا معنی عام ہے، یعنی پورا دین اسلام، اس میں تفقہ حاصل کرنے کے لیے بھی جہاد کے میدانوں کا رخ کرنا ضروری تھا، کیونکہ دین کے علم کا سرچشمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی تھی اور آپ مدینہ میں ہجرت کے بعد اکثر جہاد فی سبیل اللہ کے لیے سفر ہی میں رہتے، یا پھر اپنے کسی صاحب علم و فقہ صحابی کو امیر بنا کر بھیجتے تھے۔ بہت سے معجزات اور مسائل و احکام دوران سفر ہی واقع یا نازل ہوئے، اس لیے جب صحابہ کے حالات بیان ہوتے ہیں تو ان کی قابلیت و فضیلت کا ذکر اس طرح ہوتا ہے : ’’شَهِدَ الْمَشَاهِدَ كُلَّهَا‘‘ کہ وہ تمام جنگوں میں حاضر رہے اور کہا جاتا ہے : ’’شَهِدَ الْبَدْرَ اَوِ الْحُدَيْبِيَةَ اَوْ فَتْحَ مَكَّةَ اَوْ حُنَيْنًا اَوْ تَبُوْكَ ‘‘ کہ فلاں صاحب بدر یا حدیبیہ یا فتح مکہ یا حنین یا تبوک میں شریک ہوئے اور یہ بات تو عیاں ہے کہ گھر کے بکھیڑوں میں علم و فقہ کا حصول اس طرح ممکن ہی نہیں جس طرح ہر چیز سے فارغ ہو کر لشکر اسلام میں جا کر ممکن ہے۔ دیکھو مسیلمہ کذاب کی لڑائی میں قرآن کے کتنے قاری اور علماء و فقہاء شہید ہوئے۔ لڑائی تو تھوڑی دیر کے لیے ہوئی تھی، باقی دوران سفر اقامت اور رباط میں تعلیم و تعلّم یعنی تفقہ فی الدین ہی کا شغل ہوتا تھا، جس میں لڑنے کے سلیقے کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام مسائل سیکھے سکھائے جاتے تھے اور سب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر، عشرہ مبشرہ اور دوسرے افاضل صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے دورانِ جہاد میں دین سیکھتے اور واپس اپنی قوم میں جا کر انھیں دوسرے دینی مسائل سکھانے کے ساتھ ساتھ دنیا اور آخرت کی ذلت، ترکِ جہاد سے ڈرا کر انھیں دشمن سے بچنے کی ترغیب دیتے۔ ’’لِيُنْذِرُوْا ‘‘ اور ’’يَحْذَرُوْنَ ‘‘ پر غور فرمائیں تو بات کافی حد تک سمجھ میں آ جائے گی کہ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی حالتِ زار کون سی چیز میں تفقہ حاصل نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ سید المفسرین امام طبری رحمہ اللہ اور کئی اور مفسرین نے اسی مفہوم کو ترجیح دی ہے، البتہ ’’ لِيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ ‘‘ میں دین سے جہاد مراد لینے کی دلیل : (( حَتّٰی تَرْجِعُوْا اِلٰی دِيْنِكُمْ )) انھوں نے ذکر نہیں فرمائی۔ آیت کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب سورۂ توبہ میں جنگ تبوک سے رہ جانے والوں پر اللہ تعالیٰ نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا تو ہر مسلمان کی کوشش اور خواہش یہ تھی کہ آئندہ ہم ہر جنگ میں ضرور جائیں گے، اس پر یہ آیت اتری کہ تمام مسلمانوں کو ہر مہم کے لیے نہیں نکل جانا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں اکیلے رہ جائیں، بلکہ ہر قبیلے میں سے کچھ لوگوں کو مدینہ میں آپ کے پاس بھی آ کر حاضر رہنا چاہیے، تاکہ وہ مدینہ کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہرے داری کا فریضہ بھی سرانجام دیں اور علم بھی حاصل کریں اور واپس جا کر اپنی قوم کو تعلیم دین سے آراستہ کریں۔ اسی طرح کچھ لوگوں کو دینی مدارس میں پڑھنے کے لیے بھی نکلنا چاہیے، تاکہ وہ یکسوئی سے دین کی اچھی طرح سمجھ حاصل کریں اور پھر واپس جاکر اپنی قوم کو دین سمجھا سکیں۔ ہاں حالات کے تحت امیر المومنین نفیر عام کا حکم دیں تو پھر سب کو نکلنا چاہیے، کیونکہ جب قیام کا وقت ہو سجدہ نہیں کیا جاتا۔ یہ مطلب بھی بہت سے مفسرین نے بیان فرمایا ہے۔