يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو (١)
وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ: یہ صادقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مخلص صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہیں۔ صدق نیت، قول اور فعل تینوں میں ہو تو صدق ہے، ورنہ فعل قول کی تکذیب کرے تو یہ بھی صدق نہیں، اس لیے جو لوگ اپنے اخلاص نیت اور قول کے مطابق عملاً تبوک کی طرف نکلے بھی وہی صادقین ٹھہرے اور ان کا ساتھ دینے کا حکم دیا گیا۔ ان تینوں نے بھی سچ کہا، اپنی خطا مانی اس لیے بخشے گئے، نہیں تو منافقین میں ملتے۔ (موضح) اللہ تعالیٰ نے سچے مومن قرار ہی ان لوگوں کو دیا ہے جو ایمان لانے کے بعد شک میں مبتلا نہیں ہوئے اور اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا، فرمایا کہ صادق صرف یہی لوگ ہیں۔ دیکھیے سورۂ حجرات (۱۵) اور سورۂ حشر (۸) کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا انعام مجھ پر یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سچ بولا، ورنہ میں بھی جھوٹ بول کر ہلاک ہو جاتا جس طرح دوسرے ہلاک ہو گئے۔ [بخاری، المغازی، باب حدیث کعب بن مالک رضی اللّٰہ عنہ....: ۴۴۱۸] بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس سچ بولنے کے انعام میں ان کی توبہ کا تذکرہ قرآن میں فرمایا جو قیامت تک پڑھا جائے گا۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’سچ کو لازم پکڑو، کیونکہ سچ نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی سچ کہتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، حتیٰ کہ اللہ کے ہاں صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچ جاؤ، کیونکہ جھوٹ نافرمانی کی طرف لے جاتا ہے اور نافرمانی آگ کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ کہتا رہتا ہے اور جھوٹ کی کوشش کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘ [ بخاری، الأدب، باب قول اللّٰہ تعالٰی : ﴿ یأیھا الذین اٰمنوا اتقوا اللّٰہ....﴾ : ۶۰۹۴۔ مسلم : ۲۶۰۷ ]