لَّقَد تَّابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کے حال پر توجہ فرمائی اور مہاجرین اور انصار کے حال پر بھی جنہوں نے ایسی تنگی کے وقت پیغمبر کا ساتھ دیا (١) اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں کچھ تزلزل ہو چلا تھا پھر اللہ نے ان کے حال پر توجہ فرمائی۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان سب پر بہت ہی شفیق مہربان ہے۔
لَقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَى النَّبِيِّ....: ’’تَابَ ‘‘ کے معانی لوٹ آنا، مہربان ہو جانا، معافی مانگنا، معاف کر دینا، آئندہ غلطی سے باز آنا اور توبہ قبول کر لینا سبھی آتے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور مہاجرین و انصار پر مہربان ہونے اور معاف فرمانے کا مطلب ’’فِيْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ ‘‘ کے الفاظ سے سمجھ میں آتا ہے۔ تنگی کی گھڑی سے مراد غزوۂ تبوک پر روانگی کا وقت ہے جب شدید گرمی کا موسم تھا، قحط سالی تھی، فصلیں پکنے والی تھیں اور بے سروسامانی کی حالت تھی، ادھر چھ سو کلو میٹر کا طویل اور پر مشقت سفر سامنے تھا۔ دس آدمیوں کے لیے صرف ایک اونٹ تھا، سواریوں، زادِ راہ اور پانی تینوں کی سخت تنگی تھی۔ چنانچہ اس وقت بعض سچے مخلص مسلمان بھی جہاد پر روانہ ہونے سے گھبرانے لگے، آخر ان کے ایمان کی پختگی ان کے نفس پر غالب آئی اور وہ پورے عزم کے ساتھ جہاد پر نکل کھڑے ہوئے۔ یہاں اللہ کی مہربانی سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے اس گھبراہٹ کے عالم میں انھیں روانگی کے لیے ہمت و جرأت عطا فرمائی اور ان کے دل میں آنے والے خطرات بھی معاف فرما دیے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مہربانی سے مراد وہ آیت (۴۳) ہے جس کا آغاز ہی اس طرح ہوا تھا : ﴿ عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ ﴾ کہ اللہ نے آپ کو معاف فرما دیا، آپ نے ایسے ہٹے کٹے، تنومند اور کھاتے پیتے منافقوں کو جہاد سے پیچھے رہنے کی رخصت کیوں دی؟