سورة التوبہ - آیت 67

الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُم مِّن بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ ۚ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ ۗ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

تمام منافق مرد اور عورت آپس میں ایک ہی ہیں (١) یہ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بھلی باتوں سے روکتے ہیں اور اپنی مٹھی بند رکھتے ہیں (٢) یہ اللہ کو بھول گئے اللہ نے انہیں بھلا دیا (٣) بیشک منافق ہی فاسق و بد کردار ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُهُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ....: یعنی منافق مرد ہوں یا عورتیں سب ایک جیسے ہیں اور سب کی ایک جیسی عادات اور بدخصلتیں ہیں، وہ برے کام کا حکم دیں گے، اچھے کام سے روکیں گے اور بخل کی وجہ سے اپنے ہاتھ بند رکھیں گے، یعنی خرچ نہیں کریں گے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے انھیں بھلا دینے کا ذکر ان کے اللہ تعالیٰ کو بھول جانے کے مقابلے میں فرمایا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے یہی سلوک کیا کہ ان کی پروا ہی نہیں فرمائی، بلکہ انھیں اپنے فضل و کرم سے محروم کر دیا۔ اس تاویل کی ضرورت اس بنا پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود موسیٰ علیہ السلام کی زبانی نقل فرمایا : ﴿لَا يَضِلُّ رَبِّيْ وَ لَا يَنْسَى﴾ [ طٰہٰ : ۵۲ ] ’’میرا رب بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔‘‘ معلوم ہوا کہ یہاں اللہ تعالیٰ کی بھولنے کی طرف نسبت صرف لفظ کے ہم شکل ہونے تک ہے، ورنہ وہ ذات پاک بھولنے سے ہر طرح پاک ہے ۔ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ: یعنی فسق (نافرمانی) میں حد کمال تک پہنچ چکے ہیں۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’بے اعتقاد کی صلاحیت کیا معتبر ہے، اسے فاسق ہی کہنا چاہیے۔‘‘ (موضح)