عَفَا اللَّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ
اللہ تجھے معاف فرما دے، تو نے انہیں کیوں اجازت دے دی؟ بغیر اس کے کہ تیرے سامنے سچے لوگ کھل جائیں اور تو جھوٹے لوگوں کو بھی جان لے (١)۔
عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ....: ہوا یہ کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کی طرف روانہ ہونے لگے تو بعض منافقین نے بناوٹی حیلے بہانے پیش کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدینہ ہی میں رہنے کی اجازت چاہی، حالانکہ انھوں نے طے کر رکھا تھا کہ اجازت نہ ملی پھر بھی نہیں جائیں گے۔ اب ان کی آزمائش کے لیے انھیں اجازت دینے سے اس وقت تک گریز کرنا چاہیے تھا جب تک واضح نہ ہو جاتا کہ کس کا عذر حقیقی ہے اور کون بہانے باز ہے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حقیقت کھلنے سے پہلے ہی انھیں مدینہ میں رہنے کی اجازت دے دی۔ اس اجازت دینے پر اللہ تعالیٰ نے اپنے ناراض ہونے کا اظہار فرمایا، مگر نہایت لطف و کرم اور مہربانی کے ساتھ کہ اس اظہار سے پہلے معاف کر دینے کی اطلاع دی اور پھر فرمایا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ اس میں پیچھے رہنے والوں کی مذمت بھی صاف نمایاں ہے، کیونکہ ان میں کم ہی تھے جن کا عذر صحیح تھا، اکثر جھوٹ ہی بول رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ان لوگوں کو اجازت دینے پر ناراضی کا اظہار فرمایا جنھوں نے آپ سے اجازت مانگی اور انھیں اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہ رکھنے والے بتایا جو جہاد میں نکلنا ہی نہیں چاہتے تھے اور سورۂ نور میں فرمایا : ﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَاْذِنُوْنَكَ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ﴾ [ النور : ۶۳ ] ’’بے شک جو لوگ تجھ سے اجازت مانگتے ہیں وہی لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘ وہاں مراد یہ ہے کہ منافقین اجتماعی کام مثلاً جہاد وغیرہ میں آئے ہوئے ہوں تو بغیر پوچھے کھسک جاتے ہیں، اجازت مانگتے ہی نہیں، جب کہ اہل ایمان ضرورت کے وقت بھی آپ سے پوچھے بغیر نہیں جاتے۔