سورة التوبہ - آیت 34

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۗ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اے ایمان والو! اکثر علماء اور عابد، لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روک دیتے ہیں (١) اور جو لوگ سونا چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے (٢)۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّهْبَانِ....: سلسلۂ کلام کو دیکھیں تو یہاں احبار و رہبان سے مراد اہل کتاب کے عالم اور درویش ہیں، مگر الفاظ عام ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے علماء اور زہاد و صوفیا بھی اس میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا انصاف ملاحظہ فرمائیں کہ سب احبار و رہبان کو ایک جیسا قرار نہیں دیا بلکہ ان میں سے بہت سے لوگوں کا یہ حال بیان فرمایا کہ وہ لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکتے ہیں۔ دیکھیے سورۂ مائدہ ( ۶۲، ۵۹) رازی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہود و نصاریٰ کے بہت سے احبار و رہبان کے فخر و کبر، اللہ کے محبوب ہونے، عام لوگوں سے اونچی مخلوق ہونے اور خدائی اختیارات کے دعوؤں کا ذکر کیا تو اب بتایا کہ ان تمام چیزوں کے اظہار سے ان کا مقصود لوگوں سے رشوت لے کر، غلط مسئلے بتا کر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بشارتوں کو چھپا کر اور ان کو غلط معنی پہنا کر ان کا مال باطل طریقے سے ہتھیانا اور انھیں اللہ کے راستے، یعنی اسلام سے روکنا ہے۔ اللہ جانتا ہے آپ یہود و نصاریٰ کے بہت سے احبارو رہبان کی جگہ آج کل مسلمانوں کے بہت سے احبار و رہبان کا لفظ لگا دیں تو آپ دونوں میں کوئی فرق نہیں پائیں گے، وہی خدا کے محبوب ہونے اور اس سے ہم کلام ہونے کے دعوے، اسی طرح ترک دنیا کا اظہار جس کے پیچھے بدترین حرص چھپی ہوئی ہے، تقدس کا اظہار جس کے پیچھے کتنی عفیفاؤں کی عزت لوٹنے کی وارداتیں موجود ہیں، دین اسلام کے عالم، ستون اور محقق ہونے کے دعوؤں کے باوجود وہ نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اپنے یا اپنے پیشواؤں کے اقوال کو اللہ اور اس کے رسول کا حکم کہہ کر پیش کرتے اور اصل قرآن و سنت سے لوگوں کو روکتے ہیں۔ اگر یقین نہ ہو تو کسی گدی نشین، خانقاہ کے شیخ یا دارالعلوم کے حضرت صاحب (الا ما شاء اللہ) کا تجربہ کر لیں، آپ کو وہی فرشتوں جیسی پاکیزگی اور دنیا سے کامل بے رغبتی کے اظہار کے پیچھے بہت کچھ چھپا ہوا مل جائے گا۔ جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی تصدیق ہو گی، آپ نے فرمایا : ’’یقیناً تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں پر (برابر) سوار ہو جاؤ گے، جس طرح ایک بالشت دوسری بالشت کے اور ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کے برابر ہوتا ہے۔‘‘ [ مستدرک حاکم: 4؍455، ح : ۸۴۰۴ ] ہاں، یہ اللہ کا شکر ہے کہ اس دین کی حفاظت کا ذمہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اٹھایا ہوا ہے، اس لیے آپ ہی کی پیش گوئی کے مطابق مسلمانوں میں اصل دین پر قائم رہنے والے اہل حق ہر طبقہ، مثلاً علماء، زہاد، مجاہدین، تجار وغیرہم میں قیامت تک موجود رہیں گے اور اللہ کی مدد سے غالب و منصور رہیں گے، جیسا کہ چند احادیث پچھلی آیت کی تفسیر میں گزری ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے فضل سے ان لوگوں میں شامل فرمائے۔ وَ الَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ....: اس میں ’’الَّذِيْنَ ‘‘ (وہ لوگ) سے مراد بعض صحابہ اور مفسرین نے یہود و نصاریٰ کے احبار و رہبان ہی لیے ہیں جن کی پہلی دو کمینگیوں (باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھانا اور اللہ کی راہ سے روکنا) کے بعد تیسری کمینگی سونا چاندی جمع کرنا بیان فرمائی ہے، کیونکہ بات انھی کی ہو رہی ہے، لیکن اکثر صحابہ اور مفسرین کے مطابق الفاظ کے عام ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ ہوں یا مسلمان، یہ کمینگی جس میں بھی پائی جائے وہ اس وعید کا مستحق ہے اور حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کوئی بھی شخص جو سونے یا چاندی کا مالک ہو، اس سے اس کا حق ادا نہ کرے، اس کے لیے قیامت کے دن آگ سے (اس سونے یا چاندی کی) سلاخیں یا تختے بنائے جائیں گے، پھر جہنم کی آگ میں انھیں خوب گرم کرکے اس کے پہلو، پیشانی اور پیٹھ کو داغا جائے گا، جب وہ ٹھنڈے ہو جائیں گے تو انھیں دوبارہ گرم کر لیا جائے گا، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہو گی، یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے، تو وہ جنت یا آگ کی طرف اپنا راستہ دیکھے گا۔‘‘ (لمبی حدیث ہے جس میں اونٹوں، بکریوں اور گھوڑوں وغیرہ کا حق ادا نہ کرنے والوں کی وعید بھی مذکور ہے) [ مسلم، الزکاۃ، باب إثم مانع الزکاۃ :24؍987] وَ لَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ: اللہ کی راہ میں خرچ کرنا یہ ہے کہ زکوٰۃ دیتا رہے، اس کے علاوہ بھی ضرورت مندوں پر خرچ کرتا رہے، حاجت مندوں کو قرض دے، حق داروں کا حق ادا کرے، جیسا کہ ’’لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا ‘‘ والی آیت میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی مال دینے کا بیان ہے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۷۷) مثلاً اہل خانہ کے اخراجات، مہمان کی ضیافت، مسجد بنانا، جہاد کی تیاری میں مال خرچ کرنا وغیرہ۔ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ: ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی رو سے مطلقاً سونا چاندی جمع کرنے کو حرام قرار دیا ہے، مگر جمہور صحابہ جیسے امیر المومنین عمر، ابن عمر، ابن عباس، جابر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم اس طرف گئے ہیں کہ جس مال کی زکوٰۃ دے دی جائے وہ یہ کنز نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس وعید کے تحت آتا ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ’’یہ زکوٰۃ کا حکم نازل ہونے سے پہلے کی بات ہے، جب زکوٰۃ کا حکم اترا تو اللہ تعالیٰ نے اسے اموال کے پاک کرنے کا ذریعہ بنا دیا۔‘‘ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ عز و جل : یوم یحمی علیھا : ۴۶۶۱ ] اگر ضرورت سے زائد سارا مال خرچ کرنا واجب ہو تو میراث اور وصیت وغیرہ کا کچھ مطلب باقی نہیں رہتا اور ایک صحابی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارکانِ اسلام بتاتے ہوئے جب زکوٰۃ کے فرض ہونے کا ذکر فرمایا تو اس نے پوچھا : (( هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا؟ )) ’’کیا مجھ پر اس کے علاوہ بھی فرض ہے؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : (( لاَ إِلاَّ اَنْ تَطَوَّعَ )) ’’نہیں، مگر یہ کہ تو خوشی سے دے۔‘‘ یعنی اس سے زائد فرض نہیں نفل ہے۔ [ بخاری، الإیمان، باب الزکوٰۃ : ۴۶۔ مسلم : ۱۱ ] زکوٰۃ جس کی ادائیگی سے مال کنز کے حکم میں نہیں رہتا، پاک ہو جاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مقدار مقرر فرمائی۔ چاندی پانچ اوقیہ (۲۰۰ درہم) سے کم پر زکوٰۃ نہیں۔ جب دو سو درہم ہوں اور ان پر سال گزر جائے تو ان میں پانچ درہم زکوٰۃ ہو گی، یعنی اڑھائی فیصد (چالیس میں سے ایک درہم) اور سونے میں جب تک بیس دینار نہ ہوں زکوٰۃ نہیں، جب بیس دینار ہوں اور ان پر سال گزر جائے تو ان میں نصف دینار زکوٰۃ ہے، جو زیادہ ہو اس کی زکوٰۃ اسی حساب سے ہو گی۔ [ أبوداؤد، الزکاۃ، باب زکاۃ السائمۃ : ۱۵۷۳، عن علی، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و صححہ الألبانی ]