لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ ۙ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُم مُّدْبِرِينَ
یقیناً اللہ تعالیٰ نے بہت سے میدانوں میں تمہیں فتح دی ہے اور حنین کی لڑائی والے دن بھی جب کہ تمہیں کوئی فائدہ نہ دیا بلکہ زمین باوجود اپنی کشادگی کے تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر مڑ گئے۔
1۔ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِيْ مَوَاطِنَ كَثِيْرَةٍ: بدر میں اپنے انعامات کے تذکرے، جہاد کی ترغیب، کفار سے دوستی ترک کرنے کی تلقین اور دنیا کی ہر چیز پر اللہ اور اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ کی ترجیح کے حکم کے بعد اب اللہ تعالیٰ نے اپنے کچھ مزید انعامات ذکر فرمائے، جن میں حنین کا خاص ذکر فرمایا، مگر حنین کا ذکر کرنے سے پہلے بہت سے گزشتہ مواقع میں ﴿فِيْ مَوَاطِنَ كَثِيْرَةٍ ﴾ اپنی مدد کا ذکر فرمایا، ان میں ہجرت ﴿فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا﴾ [ التوبۃ : ۴۰ ] بدر ﴿وَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ﴾ [ آل عمران : ۱۲۳ ] احد ﴿وَ لَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗۤ اِذْ تَحُسُّوْنَهُمْ بِاِذْنِهٖ ﴾ [ آل عمران : ۱۵۲ ] خندق ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ ﴾ [ الأحزاب : ۹ ] حدیبیہ ﴿اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا ﴾ [ الفتح : ۱ ] فتح مکہ ﴿اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ﴾ [ النصر : ۱ ] یہودی قبائل ﴿هُوَ الَّذِيْۤ اَخْرَجَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِيَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ ﴾ [ الحشر : ۲ ] اور منافقین سے معاملات وغیرہ سب شامل ہیں اور سب کا ذکر قرآن و حدیث میں مختلف مقامات پر موجود ہے، مگر ان کو یہاں بطور تمہید ذکر فرما کر اصل تذکرہ حنین کے دن کیے جانے والے انعام کا فرمایا اور اس کی وجہ بھی بیان فرمائی۔ حنین مکہ معظمہ اور طائف کے درمیان ایک وادی ہے، وہاں فتح مکہ (رمضان ۸ھ) کے ایک ماہ بعد شوال ۸ھ میں مسلمانوں کی ہوازن، ثقیف، بنو جشم، بنو سعد اور بعض دوسرے قبائل سے جنگ ہوئی تھی۔ 2۔ وَ يَوْمَ حُنَيْنٍ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ....: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار کا لشکر تو ان مہاجرین و انصار کا تھا جو فتح مکہ کے لیے آپ کے ساتھ مدینہ سے آئے تھے اور دو ہزار آدمی آپ کے ساتھ اہل مکہ ( طلقاء) میں سے شامل ہو گئے تھے۔ اس طرح مسلمانوں کا کل لشکر بارہ ہزار لڑنے والوں پر مشتمل تھا، جبکہ اس کے مقابلے میں دشمنوں کی تعداد صرف چار ہزار کے قریب تھی، اس پر بہت سے مسلمانوں میں عجب (خود پسندی) اور ایک قسم کا غرور پیدا ہو گیا، حتیٰ کہ بعض نے کہا آج ہم قلت تعداد کی وجہ سے مغلوب نہیں ہوں گے۔ یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا۔ (ابن کثیر) جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم وادی حنین کی طرف چلے تو ہم تہامہ کی وادیوں میں سے ایک وادی میں اترے، وادی بڑی وسیع و عریض تھی، اس میں اوپر نیچے ٹیلے اور چھوٹی چھوٹی ڈھلوانی پہاڑیاں تھیں، ہم اوپر چڑھتے اور نیچے اترتے ہوئے آگے کی جانب بڑھتے اور لڑھکتے جا رہے تھے، ابھی صبح کا اندھیرا تھا، دشمن ہمارے لیے مختلف گھاٹیوں، کناروں اور تنگ گزر گاہوں میں پورے اتفاق اور مقابلے کی تیاری کے ساتھ چھپے بیٹھے تھے۔ اللہ کی قسم! ہمیں اترتے اترتے پتا ہی نہ چلا کہ دشمن نے مل کر اس طرح حملہ کیا جیسے ایک آدمی کرتا ہے۔ (دوسری روایات میں ہے کہ وہ زبردست نشانہ باز تھے، انھوں نے تیروں کی بوچھاڑ کر دی) لوگ شکست کھا کر واپس پلٹے، وہ بھاگے جاتے تھے اور کوئی کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں طرف ایک جگہ ہو گئے، پھر فرمایا : ’’لوگو ! میری طرف توجہ کرو، میری طرف آؤ، میں رسول اللہ ہوں، میں محمد بن عبد اللہ ہوں۔‘‘ کہیں سے جواب نہیں آ رہا تھا، اونٹ ایک دوسرے پر گرتے پڑتے بھاگ رہے تھے، لوگ ادھر ادھر نکل گئے، سوائے مہاجرین و انصار کے ایک گروہ اور آپ کے خاندان کے لوگوں کے جو زیادہ نہ تھے۔ ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما آپ کے ساتھ ڈٹے رہے، آپ کے خاندان والوں میں سے علی بن ابو طالب، عباس بن عبدالمطلب، ان کے بیٹے فضل، ابو سفیان بن حارث اور ایمن بن عبید جو ام ایمن کے بیٹے تھے اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم ۔ [ أحمد :3؍376، ح : ۱۵۰۲۷، وحسنہ شعیب الأرنؤوط۔ ابن حبان : ۴۷۷۴ ] عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری آواز بڑی بلند تھی، اس وجہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا : ’’ اے عباس ! کیکر ( کے درخت) والوں کو آواز دو۔‘‘ چنانچہ میں نے بلند آواز سے پکارا کہ کیکر ( تلے بیعت رضوان کرنے) والے کہاں ہیں ؟ اللہ کی قسم! ان لوگوں نے جب میری آواز سنی تو وہ ’’ ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں‘‘ کہتے ہوئے اس طرح دوڑے جس طرح گائے اپنے بچے کی طرف دوڑتی ہے۔ عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکر پکڑے اور دشمنوں کی طرف پھینکے، اس کے ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ محمد کے رب کی قسم ! وہ شکست کھا گئے۔‘‘ [مسلم، الجہاد، باب غزوۃ حنین : ۱۷۷۵ ] یہ وہ وقت ہے جب مسلمان جم گئے اور فرشتے نازل ہوئے : ﴿وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا ﴾ ’’اور اس نے ایسے لشکر اتارے جنھیں تم نے نہیں دیکھا۔‘‘ 3۔ وَ عَذَّبَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا....: اللہ تعالیٰ نے کفار کو یہ سزا دی کہ انھیں شکست فاش ہوئی، ان کے بچے اور عورتیں لونڈی و غلام اور ان کے اموال مسلمانوں کی غنیمت بنے، بہت سے بڑے بھی اسیر ہوئے اور دنیا میں کفار کی یہی جزا ہے۔