مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَىٰ أَنفُسِهِم بِالْكُفْرِ ۚ أُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ
لائق نہیں کہ مشرک اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کو آباد کریں۔ درآں حالیکہ وہ خود اپنے کفر کے آپ ہی گواہ ہیں (١) ان کے اعمال غارت و اکارت ہیں اور وہ دائمی طور پر جہنمی ہیں (٢)۔
1۔ مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ....: یہاں تک کفار کے عہد و پیمان سے براء ت کا اعلان، کفار سے جہاد، اس کے فوائد اور حکمتوں کا بیان تھا۔ اب یہ بیان شروع ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مساجد کی آباد کاری، ان کی نگرانی اور تولیت و خدمت مشرکین کا کسی صورت حق نہیں بنتا، کیونکہ مساجد تو خالص اللہ کے لیے ہیں : ﴿وَاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا﴾ [ الجن : ۱۸ ] ’’اور یہ کہ بلاشبہ مسجدیں اللہ کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔‘‘ سو ان کی نگرانی اور آباد کاری ان لوگوں کا حق کیسے ہو سکتا ہے جو خود اپنے آپ پر اس اکیلے مالک کے ساتھ کفر کے گواہ اور شاہد ہیں، جو حج اور عمرہ کے وقت بھی ( جو صرف اللہ کے لیے ہیں) لبیک کہتے وقت غیروں کو علی الاعلان اس کا شریک بناتے ہیں۔ چنانچہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ مشرکین کہتے تھے : (( لَبَّيْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ ))’’حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے : ’’اسی پر بس کر دو، آگے مت کہنا۔‘‘ مگر وہ کہتے : (( إِلاَّ شَرِيْكًا هُوَ لَكَ تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ )) ’’مگر ایک شریک جو تیرا ہی ہے جس کا تو مالک ہے، وہ خود مالک نہیں۔‘‘ وہ لوگ یہ الفاظ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے کہتے تھے۔ [مسلم، الحج، باب التلبیۃ وصفتھا و وقتھا : ۱۱۸۵ ] ان کی اپنے کفر پر شہادت وہ تین سو ساٹھ بت بھی تھے جو انھوں نے کعبہ کے اندر اور اس کے ارد گرد رکھے ہوئے تھے، کعبہ کی دیواروں پر بزرگوں اور دیوی دیوتاؤں کی تصویریں بنا رکھی تھیں۔ ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام کی صورتیں بناکر ان کے ہاتھ میں فال کے تیر پکڑائے ہوئے تھے، ان کی عبادت غیر اللہ کو پکارنا تھا، ان کا بیت اللہ کا احترام انتہائی بے حیائی، یعنی ننگے ہو کر مردوں اور عورتوں کا طواف کرنا تھا اور ان کی نماز تالیاں پیٹ کر اور سیٹیاں بجا کر مشرکانہ قوالیاں کرنا تھا۔ ایسے لوگ اللہ کے سب سے پہلے اور افضل گھر کے تو کجا اس کی کسی مسجد کے متولی، مجاور یا خادم بننے کا بھی کوئی حق نہیں رکھتے، اس لیے ان سے کعبہ اور دوسری مساجد کو آزاد کروانا مسلمانوں پر فرض ہے۔ علامہ اقبال نے یہاں ایک نہایت نفیس نکتہ نکالا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے پوری زمین کو مسجد بنایا ہے، جیسا کہ فرمایا : (( جُعِلَتْ لِيَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا وَّ طَهُوْرًا )) [ بخاری، التیمم، باب قول اللّٰہ تعالٰی : ﴿فلم تجدوا مآء....﴾ : ۳۳۵۔ مسلم : ۵۲۳ ] اس لیے مسلمانوں کے لیے غیرت اور ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ان کی مسجد پر غیر مسلموں کا قبضہ ہو، نہیں بلکہ یہ ساری مسجد یعنی ساری زمین مسلمانوں کے قبضے میں ہونی چاہیے اور کفار کو ان کے ماتحت ہونا چاہیے۔ 2۔ اُولٰٓىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ: یعنی انھوں نے اگر کچھ نیک کام کیے بھی ہیں، جیسے مسجد حرام اور حاجیوں کی خدمت وغیرہ، تو ان کے شرک کی وجہ سے وہ سب اکارت گئے۔