قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ
ان سے تم جنگ کرو اللہ تعالیٰ انہیں تمہارے ہاتھوں عذاب دے گا، انہیں ذلیل اور رسوا کرے گا، تمہیں ان پر مدد دے گا اور مسلمانوں کے کلیجے ٹھنڈے کرے گا۔
1۔ قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ....: ان دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے عہد توڑنے والے کفار سے لڑنے کی صورت میں مسلمانوں کے ساتھ پانچ وعدے کیے ہیں جو سب کے سب پورے فرمائے، پہلا یہ کہ ’’يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ‘‘ یعنی پہلی قوموں پر اللہ کی طرف سے قدرتی آفات کے ذریعے سے عذاب آتا تھا، اب تم ان سے لڑو، اللہ تعالیٰ تمھارے ہاتھوں انھیں عذاب دے گا، جو کفار کے قتل، زخمی، قید ہونے اور ان سے مال غنیمت کے حصول کی صورت میں ہو گا۔ دوسرا یہ کہ ’’يُخْزِهِمْ ‘‘ انھیں رسوا کرے گا، ان کی فوجی قوتوں کا گھمنڈ توڑ کر ان کی حکومت کی عزت خاک میں ملا کر انھیں ذلیل و رسوا کرے گا۔ تیسرا یہ کہ ’’وَ يَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ ‘‘ ان کے خلاف تمھاری مدد کرے گا اور تمھیں غلبہ عطا کرے گا۔ اسے الگ اس لیے ذکر فرمایا کہ ہو سکتا تھا کہ کفار تو ذلیل ہو جائیں مگر مسلمانوں کے ہاتھ بھی کچھ نہ آئے۔ چوتھا یہ کہ ’’وَ يَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُؤْمِنِيْنَ‘‘ تمھارے ان سے لڑنے اور غلبہ پانے سے ان مومنوں کے سینوں کو شفا ملے گی جو ان کفار موذیوں کے ہاتھوں ظلم و ستم سہتے رہے۔ ان سے مراد وہ مسلمان ہیں جو مکہ اور دوسری جگہوں میں کفار کی ایذا کا نشانہ بنے۔ بعض نے فرمایا کہ ان سے مراد بنو خزاعہ ہیں جنھیں بنو بکر اور قریش نے بد عہدی کرکے سخت نقصان پہنچایا اور واقعی یہ لوگ بھی کفار کے زخم خوردہ لوگوں میں شامل تھے۔ اور پانچواں یہ کہ ’’وَ يُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوْبِهِمْ ‘‘ ان کے دلوں کے غصے کو دور کرے گا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ شفائے صدور ہی کی تاکید ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک الگ نعمت ہے۔ شفائے صدور سے مراد ان ظالموں کا قتل اور ان کی رسوائی ہے اور دلوں کا غصہ دور کرنے سے مراد مسلمانوں کو محکومی کی بے بسی میں جو غصہ کفار پر آتا تھا مگر کچھ کر نہ سکتے تھے، اب فتح و غلبہ کی صورت میں اس غصے کو دور کرنا ہے اور ویسے بھی شفائے قلوب کے بعد بھی ظلم و ستم کے جو آثار غصے کی صورت میں باقی رہتے ہیں الگ حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے واقعات سن کر دل میں غصہ تو آتا ہی ہے، جیسے اب بھارت وکشمیر، فلسطین و فلپائن، برما، عیسائی اور کمیونسٹ ممالک میں مسلمانوں پر ظلم کی داستانیں سن کر دل کو غصہ آتا ہے، کفار پر فتح یاب ہونے سے اس غصے کا بھی مداوا ہوتا ہے۔ 2۔ وَ يَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ: اس سے پہلے پانچ الفاظ ’’يُعَذِّبْهُمْ ‘‘ ’’يُخْزِهِمْ ‘‘ ’’يَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ ‘‘ ’’يَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُؤْمِنِيْنَ‘‘ اور ’’يُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوْبِهِمْ ‘‘ فعل مضارع مجزوم تھے، کیونکہ وہ ’’قَاتِلُوْهُمْ ‘‘ امر کا جواب تھے کہ لڑنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ تمھیں یہ پانچ انعام عطا فرمائے گا۔ اب ’’يَتُوْبُ‘‘ مجزوم نہیں بلکہ مرفوع ہے۔ معلوم ہوا یہاں سے نئی بات شروع ہو رہی ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے : ’’ اور اللہ توبہ کی توفیق دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔‘‘ یہاں اس جملے کے لانے کا مقصد یہ ہے کہ تمھارے جہاد کی صورت میں جب بڑے بڑے سرکشوں کی گردنیں خم ہوں گی، تو وہ اسلام کی حقانیت پر غور کریں گے اور یہ عام مشاہدہ ہے کہ لوگ غالب قوم کے دین اور ان کی تہذیب کو قبول کرتے ہیں، لہٰذا اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کو توبہ کی توفیق بھی دے گا، جیسا کہ فتح مکہ کے بعد عکرمہ بن ابی جہل، ابو سفیان، سہیل بن عمرو اور ان کے علاوہ فوج در فوج لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔ مگر اس کو ’’قَاتِلُوْهُمْ ‘‘ کا جواب بنانے کے بجائے الگ اس لیے ذکر کیا ہے کہ توبہ کی توفیق صرف کفار سے لڑائی ہی پر موقوف نہیں بلکہ اسلام اتنا واضح، روشن، مدلل اور فطرت کے مطابق دین ہے کہ بعض لوگ لڑائی کے بغیر بھی اللہ کی توفیق سے اسے سینے سے لگا لیتے ہیں اور اس میں اتنی کشش اور اتنا حسن ہے کہ اسے مٹانے کی کوشش کرنے والے لوگ اور مسلمانوں پر فتح یاب ہو جانے والے کفار بھی اللہ کی توفیق سے اسے قبول کر لیتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں ہر جگہ مسلمان اگرچہ مغلوب ہیں، مگر اسلام تمام ادیان سے زیادہ یورپ، امریکہ اور دنیا بھر کے ممالک میں پھیل رہا ہے۔ تاتاریوں نے بھی بغداد فنا کرنے کے بعد آخر اسی اسلام کی آغوش میں پناہ لی اور اسلام کو مٹانے والے ہی صدیوں تک اس کے محافظ بنے رہے ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے 3۔ وَ اللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ: وہ گزشتہ، موجودہ اور آئندہ کی ہر بات جانتا ہے اور اپنی کمال حکمت کے مطابق جسے چاہتا ہے توبہ کی توفیق سے نوازتا ہے۔ 4۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ تعالیٰ کے علم میں پکے مومن تھے، تبھی یہ پیش گوئیاں انھی مومنین کے ہاتھوں پوری ہوئیں، انھوں نے ہی مکہ اور جزیرۂ عرب فتح کیا، روم، شام، یمن، ایران، عراق، افریقہ و ایشیا، مشرق سے مغرب تک اللہ تعالیٰ نے انھی کے ہاتھوں اسلام پھیلایا۔ ان کے ذکر سے مومنوں کے دل ٹھنڈے ہوتے ہیں اور کفار کے دل غصے سے بھر جاتے ہیں، دیکھیے سورۂ فتح کی آخری آیت۔