سورة التوبہ - آیت 12

وَإِن نَّكَثُوا أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اگر یہ لوگ عہد و پیمان کے بعد بھی اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم بھی ان سرداران کفر سے بھڑ جاؤ۔ ان کی قسمیں (١) کوئی چیز نہیں ممکن ہے کہ اس طرح وہ بھی باز آجائیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

1۔ وَ اِنْ نَّكَثُوْا اَيْمَانَهُمْ....: یعنی جن لوگوں کی حالت یہ ہو کہ وہ نہ صرف تم سے معاہدہ کر کے اسے توڑتے ہوں بلکہ تمھارے دین کا مذاق اڑاتے، اس میں طعن کرتے اور عیب نکالتے ہوں تو سمجھ لو کہ یہی ’’اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ ‘‘ (کفر کے سردار) ہیں۔ ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں، لہٰذا تم ان لوگوں کو کسی قسم کا موقع دیے بغیر ان سے جنگ کرو، تاکہ تمھاری تلواروں کی کاٹ سے وہ اپنے کرتوتوں سے باز آ جائیں۔ معلوم ہوا کہ دین اسلام پر طعن کرنے والا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کرنے والا واجب القتل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ تمام کفار سے جنگ کی، مگر دین میں طعن، اسلام اور مسلمانوں کی توہین اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والوں کے قتل کا خاص اہتمام فرمایا۔ کعب بن اشرف یہودی اور ابو رافع یہودی وغیرہ کو فدائی حملوں کے ذریعے سے قتل کروانے کے واقعات اس کی واضح مثالیں ہیں۔ فتح مکہ کے موقع پر بد زبانوں کا خون رائگاں قرار دینا بھی اس کی مثال ہے۔ کفار کی طرف سے عہد توڑنے کے بعد اگر ان سے جنگ نہ کی جائے تو یہ مسلمانوں کی طرف سے بے حد کمزوری کا اظہار اور انتہا درجے کی ذلت اور بے غیرتی ہو گی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عہد توڑنے والوں سے در گزر نہیں فرماتے تھے، بلکہ فوراً انھیں ان کے انجام تک پہنچاتے تھے۔ بنو قریظہ اور اہل مکہ کے عہد توڑنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کارروائی اس کی روشن مثال ہے، مگر افسوس آج کفار کے اپنے تمام معاہدے توڑنے کے باوجود مسلمان حکام ان سے خوف زدہ اور خاموش ہیں۔ اِنَّهُمْ لَا اَيْمَانَ لَهُمْ: اللہ تعالیٰ نے کفار کے کسی عہد و پیمان کے معتبر نہ ہونے کا جو ذکر فرمایا یہ واقعی حقیقت ہے جس کا ثبوت نصرانیوں کا اندلس سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دینا ہے اور وہ سلوک بھی جو تاتاریوں نے مسلمانوں خصوصاً بغداد کے مسلمانوں کے ساتھ ۶۵۶ھ (1258ء) میں کیا اور جو کچھ ہندوؤں اور سکھوں نے پاکستان آنے والے مسلمانوں کے ساتھ کیا اور اب تک کشمیر اور بھارت کے مسلمانوں سے کر رہے ہیں اور جو کچھ روس اور دوسری کمیونسٹ ریاستوں نے اسلام اور مسلمانوں کا نام و نشان مٹانے کے لیے کیا اور اب امریکہ، یورپ اور پورا عالم کفر جس طرح عراق، افغانستان اورپاکستان کے مسلمانوں کے ساتھ کر رہا ہے اور جھوٹے الزام گھڑ کر وہ تمام عہد جو اقوام متحدہ کے ذریعے سے کیے تھے پس پشت ڈال کر اسلام اور مسلمانوں کو برباد کر رہا ہے، یہ سب کفار کے کسی عہد کے عہد نہ ہونے کی واضح مثالیں ہیں۔