كَيْفَ وَإِن يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً ۚ يُرْضُونَكُم بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَىٰ قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ
ان کے وعدوں کا کیا اعتبار ان کا اگر تم پر غلبہ ہوجائے تو نہ یہ قرابت داری کا خیال کریں نہ عہد و پیمان کا (١) اپنی زبانوں سے تمہیں پرچا رہے ہیں لیکن ان کے دل نہیں مانتے ان میں اکثر فاسق ہیں۔
كَيْفَ وَ اِنْ يَّظْهَرُوْا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوْا....: مشرکین سے ’’ براء ت‘‘ کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے معاہدے کا کوئی اعتبار نہیں، یہ لوگ زبان سے دوستی اور وفاداری کی میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں اور دل میں یہ ہے کہ اگر کبھی موقع مل جائے تو معاہدے کو پس پشت ڈال کر ان مسلمانوں کو کچا چبا ڈالیں۔ ’’اَلْاِلُّ ‘‘ کے معنی عہد، حلف، قرابت سبھی آتے ہیں اور یہاں آگے ’’ ذِمَّةً ‘‘ ( عہد) الگ ذکر ہونے کی وجہ سے قرابت مراد ہے۔