فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ ۙ وَأَنَّ اللَّهَ مُخْزِي الْكَافِرِينَ
پس (اے مشرکو!) تم ملک میں چار مہینے تک تو چل پھر لو، (١) جان لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو، اور یہ (بھی یاد رہے) کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے (٢)۔
1۔ فَسِيْحُوْا فِي الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ: یہ اللہ تعالیٰ کا مزید کرم تھا کہ مشرکین کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے چار ماہ کی مہلت دی گئی، جس کی ابتدا ۱۰ ذوالحجہ یوم النحرسے ہوئی، کیونکہ اس دن یہ اعلان کیا گیا اور ۱۰ ربیع الثانی کو یہ مدت ختم ہو گئی۔ اس مہلت کا مقصد یہ تھا کہ وہ اتنی مدت میں اپنے بارے میں خوب سوچ سمجھ لیں، پھر یا تو مسلمان ہو جائیں یا سر زمین عرب سے باہر کسی ملک میں اپنا ٹھکانا بنا لیں۔ اگر وہ اس کے بعد بھی باقی رہیں تو انھیں پکڑ کر، گھیر کر، گھات لگا کر جیسے بھی ممکن ہو قتل کر دیا جائے۔ یہ چار ماہ کی مدت ان لوگوں کے لیے تھی جن سے معاہدے کی مدت چار ماہ سے کم باقی تھی، یا معاہدہ تو زیادہ مدت کا تھا مگر انھوں نے اس کی خلاف ورزی کی تھی، یا مدت کے تعین کے بغیر معاہدہ تھا، البتہ وہ قبائل جن سے کسی خاص مدت تک معاہدہ تھا اور انھوں نے معاہدے کی کسی قسم کی مخالفت بھی نہ کی تھی ان کا عہد ان کی مدت تک پورا کرنے کا حکم دیا گیا، فرمایا : ﴿فَاَتِمُّوْا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ ﴾ [ التوبۃ : ۴ ] ’’تو ان کے ساتھ ان کا عہد ان کی مدت تک پورا کرو۔‘‘ 2۔ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ....: مشرکوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ مہلت مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ سے نہیں دی گئی بلکہ اس میں کئی حکمتیں ہیں، ورنہ تم لوگ کبھی بھی اللہ تعالیٰ کو عاجز کرنے والے نہیں، اگر تم کفر پر قائم رہے تو خوب جان لو کہ اللہ تعالیٰ کافروں کو ذلیل و رسوا کرنے والا ہے۔ دیکھیے سورۂ انفال کی آیت (۵۹) کے حواشی۔ غرض صرف بیت اللہ ہی نہیں پورے جزیرۂ عرب کو مشرکین کے نجس وجود سے پاک کر دیا گیا۔