وَالَّذِينَ آمَنُوا مِن بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَٰئِكَ مِنكُمْ ۚ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
اور جو لوگ اس کے بعد ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کیا۔ پس یہ لوگ بھی تم میں سے ہی ہیں (١) اور رشتے ناطے والے ان میں سے بعض بعض سے زیادہ نزدیک ہیں اللہ کے حکم میں (٢) بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
1۔ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ....: اس آیت میں مسلمانوں کے چوتھے گروہ کا ذکر ہے جنھوں نے صلح حدیبیہ کے بعد یا بدر کے بعد، جب اسلام ایک طاقت بن گیا، ایمان لا کر ہجرت کی، یہ لوگ بھی مہاجرین اولین اور انصار کے ساتھی شمار ہوں گے، اگرچہ سبقت کی وجہ سے پہلوں کا درجہ ان سے مقدم ہے، فرمایا : ﴿وَ السّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ﴾ [ الواقعۃ : ۱۰ ] ’’اور جو پہل کرنے والے ہیں، وہی آگے بڑھنے والے ہیں۔‘‘ مگر بخاری (۶۱۶۸) اور مسلم (۲۶۴۰) کی حدیث (( اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ )) (قیامت کے دن انسان اسی کے ساتھ ہو گا جس سے محبت اور دوستی رہی ہے) کی رو سے ان کا شمار انھی میں ہو گا۔ [فَاُولٰٓىِٕكَ مِنْكُمْ] 2۔ وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ: یعنی اب آئندہ سے میراث دینی بھائی چارے کی بنا پر نہیں بلکہ رشتہ داری کی بنا پر تقسیم ہو گی، کیونکہ ایمان، ہجرت اور جہاد کے ساتھ ساتھ رشتہ داری ان کے قرب کی ایک زائد وجہ ہے۔ اس سے وہ طریقہ منسوخ ہو گیا جس میں مہاجرین و انصار ایک دوسرے کے وارث بنتے تھے۔ (ابن کثیر) 3۔ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ: وہی جانتا ہے کہ کس کا حق پہلے اور کس کا بعد میں ہے، لہٰذا اس کے تمام احکام سراسر علم و حکمت پر مبنی ہیں۔