لَّوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی (١) تو جو کچھ تم نے لے لیا ہے اس بارے میں تمہیں کوئی بڑی سزا ہوتی۔
لَوْ لَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ....: یہاں ’’ اللہ کی طرف سے لکھی ہوئی کتاب‘‘ سے مراد کئی باتیں ہو سکتی ہیں، ایک یہ کہ اگر اس امت کے لیے غنیمت حلال نہ کر دی گئی ہوتی، جیسا کہ بخاری کی حدیث (۳۳۵) (( وَ أُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ )) (اور میرے لیے غنیمتیں حلال کر دی گئیں) سے معلوم ہوتا ہے۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے اسی کو پسند فرمایا۔ دوسری یہ کہ بدر میں جو صحابہ شریک ہوئے ان کے گناہ بخشے نہ جا چکے ہوتے وغیرہ۔ ( ابن کثیر، فتح القدیر) بعض اہل علم نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود عذاب نازل ہونے سے مانع تھا، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِيْهِمْ﴾ [ الأنفال : ۳۳ ] ’’اور اللہ کبھی ایسا نہیں کہ انھیں عذاب دے جب کہ تو ان میں ہو۔‘‘ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’وہ بات یہ لکھ چکا کہ ان قیدی لوگوں میں بہت سوں کی قسمت تھی مسلمان ہونا۔‘‘ ( موضح) الغرض اگر یہ باتیں پہلے نہ لکھی جا چکی ہوتیں تو تم پر عذاب نازل ہو جاتا۔