سورة الانفال - آیت 67

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ۚ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

نبی کے ہاتھ میں قیدی نہیں چاہییں جب تک کہ ملک میں اچھی خون ریزی کی جنگ نہ ہوجائے۔ تم تو دنیا کے مال چاہتے ہو اور اللہ کا ارادہ آخرت کا ہے (١) اور اللہ زور آور باحکمت ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى....: کسی نبی کے لیے جائز نہیں کہ وہ قیدی بنائے، پھر انھیں قید رکھے یا احسان کرے یا فدیہ لے، جب تک میدانِ جنگ میں خوب خون ریزی کے بعد کفر کی کمر نہ ٹوٹ جائے اور وہ دوبارہ مقابلے کے قابل نہ رہ جائیں، اس کے بعد قیدی بنانے میں کوئی حرج نہیں، لیکن مسلمانو ! تم نے بدر میں قیدی بنانے میں جلدی سے کام لیا، تم فدیے کی صورت میں دنیا کا سامان چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ تمھارے لیے اعلائے کلمۃ اللہ کے ذریعے سے آخرت کے ثواب کا ارادہ رکھتا تھا اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے، تمھارا یہ عمل عزت و حکمت کے مطابق نہیں۔ دوسری جگہ فرمایا : ﴿فَاِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَثْخَنْتُمُوْهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ ﴾ [ محمد : ۴ ] ’’تو جب ان لوگوں سے ملو جنھوں نے کفر کیا تو گردنیں مارنا ہے، یہاں تک کہ جب انھیں خوب قتل کر چکو تو (ان کو) مضبوط باندھ لو۔‘‘ سن ۲ ہجری غزوۂ بدر میں قیدی بنانے میں عجلت کے بعد دوسری فر و گزاشت یہ ہوئی کہ قیدیوں کا فیصلہ اس وقت کے حالات کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا، کیونکہ اس وقت فدیہ لینے کے بجائے انھیں قتل کرنے سے کفر کی کمر مزید ٹوٹتی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام مسلمانوں پر ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ (جنگ بدر میں) جب قیدی گرفتار کر لیے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے مشورہ فرمایا کہ ان قیدیوں کے متعلق تمھاری کیا رائے ہے ؟ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’اے اللہ کے نبی ! یہ ہمارے چچا زاد بھائی اور خاندان ہی کے لوگ ہیں، سو میری رائے تو یہ ہے کہ ان سے فدیہ لے لیا جائے، تاکہ ( اس رقم سے) کفار کے مقابلے میں قوت حاصل ہو اور کیا عجب کہ اللہ انھیں اسلام کی ہدایت دے دے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اے ابن خطاب! تمھاری کیا رائے ہے ؟‘‘ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’میں نے کہا، اے اللہ کے رسول ! میری رائے ابو بکر کی رائے کے مطابق نہیں ہے، میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ان کو ہمارے حوالے کیجیے، تاکہ ہم ان کی گردنیں اڑا دیں۔ عقیل کو علی کے حوالے کیجیے، تاکہ وہ اس کی گردن اڑائیں اور میرے حوالے فلاں کو کیجیے، تاکہ میں اس کی گردن اڑاؤں، اس لیے کہ یہ لوگ کفر کے سرغنے اور اس کے سردار ہیں۔ ( اکثر مسلمانوں کی رائے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق تھی، کچھ مالی فائدے کے پیش نظر اور کچھ انسانی اور رشتہ داری کی محبت کی وجہ سے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رائے اختیار فرمائی اور میری رائے اختیار نہیں کی، پھر جب دوسرے دن کی صبح ہوئی، میں آیا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ بیٹھے رو رہے ہیں۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول! مجھے بھی بتائیے آپ اور آپ کے دوست کیوں رو رہے ہیں، تاکہ اگر مجھے رونا آئے تو میں بھی روؤں، ورنہ کم از کم آپ دونوں کے رونے کی وجہ سے رونے والی صورت ہی بنا لوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں اس فیصلے کے مشورے کی وجہ سے رو رہا ہوں جو تمھارے ساتھیوں نے قیدیوں سے فدیہ لے کر چھوڑ دینے کے متعلق دیا تھا، اب میرے سامنے ان کا عذاب پیش کیا گیا جو اس درخت سے بھی قریب تھا۔‘‘ اور آپ کے قریب ایک درخت تھا۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں : ﴿مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى حَتّٰى يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ﴾ [ الأنفال : ۶۷] [مسلم، الجہاد، باب الإمداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر....: ۱۷۶۳ ] علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام اترے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اپنے ساتھیوں کو بدر کے قیدیوں کے متعلق اختیار دیں کہ انھیں قتل کر دیں یا فدیہ لے لیں، اس شرط پر کہ ان میں سے آئندہ اتنے ہی قتل کیے جائیں گے۔ انھوں نے فدیہ لینا اور آئندہ اپنے آدمیوں کی شہادت اختیار کی۔ [ ترمذی، السیر، باب ما جاء فی قتل الأساری و الفداء : ۱۵۶۷ وقال الألبانی صحیح ] یہ صورت چونکہ بہتر نہ تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس پر عتاب فرمایا۔