فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِم مَّنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ
پس جب کبھی تو لڑائی میں ان پر غالب آجائے انہیں ایسی مار مار کہ ان کے پچھلے بھی بھاگ کھڑے ہوں (١) ہوسکتا ہے کہ وہ عبرت حاصل کریں۔
فَاِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ....: ’’تَشْرِيْدٌ ‘‘ کا معنی خوف پیدا کرنے کے ساتھ بھگدڑ مچا کر انھیں منتشر کرنا ہے، یعنی اگر کبھی لڑائی میں آپ انھیں کہیں پا لیں تو انھیں بد عہدی کی ایسی سخت سزا دیں کہ ان کے پیچھے جو دوسرے ایسے کفار ہیں اور جن سے تمھارا معاہدہ ہے وہ بھی مرعوب اور خوف زدہ ہو جائیں اور انھیں ایسی عبرت حاصل ہو کہ معاہدے کی خلاف ورزی کا نام تک نہ لیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ اس سے پہلے یہود بنو نضیر اور بنو قینقاع کی جلاوطنی ہی پر اکتفا فرمایا تھا، مگر بنو قریظہ کی مسلسل بد عہدیوں اور عین خندق کے موقع پر معاہدہ توڑنے کے نتیجے میں انھیں ۲۵دن کے محاصرے کے بعد انتہائی عبرت ناک سزا دی کہ ان کے تمام ۶۰۰ بالغ مردوں کو قتل کروا دیا، جن میں ایک جنگی مجرم عورت بھی تھی اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا۔ افسوس کہ اس وقت کفار، بھارت ہو یا امریکہ ویورپ، کوئی بھی مسلمانوں سے کیے ہوئے عہد کو پورا نہیں کر رہے، مگر مسلمان اپنی نا اہلی اور عیش و عشرت کی وجہ سے غیرت و حمیت کے اظہار کے بجائے ذلت اور بے بسی پر قناعت کر رہے ہیں۔