كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ ۙ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَذَّبُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ فَأَهْلَكْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ ۚ وَكُلٌّ كَانُوا ظَالِمِينَ
مثل حالت فرعونیوں کے اور ان سے پہلے کے لوگوں کے کہ انہوں نے اپنے رب کی باتیں جھٹلائیں۔ پس ان کے گناہوں کے باعث ہم نے انہیں برباد کیا اور فرعونیوں کو ڈبو دیا۔ یہ سارے ظالم تھے (١)
كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ....: یعنی آپ سے لڑنے والے ان لوگوں کا حال آل فرعون اور ان سے پہلے کفار جیسا ہے۔ یہ بات دہرانے سے مقصود ایک تو پہلی بات کی تاکید ہے، جیسے فرمایا : ﴿اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰى () ثُمَّ اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰى﴾ [ القیامۃ : ۳۴، ۳۵] دوسرا اس میں پچھلی آیت کی کچھ تفصیل ہے، اُس میں ’’كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ‘‘ یعنی اللہ کی آیات کے انکار اور نہ ماننے کا ذکر تھا، یہاں تفصیل ہے کہ انھوں نے انکار کے ساتھ انھیں جھٹلایا بھی تھا۔ تیسرا اُس میں گناہوں پر گرفت کا ذکر تھا، اس میں آل فرعون پر اس گرفت کی تفصیل، یعنی غرق کا بیان ہے اور عذاب کے سبب کی صاف الفاظ میں وضاحت ہے کہ وہ سب ظالم تھے، جب کہ اس سے پہلے قریب ہی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ذرہ برابر ظلم کرنے والا نہیں، اگر وہ ظالم و گناہ گار نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ کو ان سے کوئی ذاتی بیر نہ تھا کہ انھیں بلاوجہ ہلاک یا غرق کر دیتا۔ واضح رہے کہ اللہ کی آیات سے مراد رسولوں کے لائے ہوئے احکام بھی ہیں اور نشانیاں اور معجزات بھی۔