وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِم بَطَرًا وَرِئَاءَ النَّاسِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ
ان لوگوں جیسے نہ بنو جو اتراتے ہوئے اور لوگوں میں خود نمائی کرتے ہوئے اپنے گھروں سے چلے اور اللہ کی راہ سے روکتے تھے (١) جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ اسے گھیر لینے والا ہے۔
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ....: مسلمانوں کو لڑائی میں ثابت قدمی اور ذکر الٰہی کی کثرت کا حکم دینے کے بعد اب کفار کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (ابن کثیر) ان سے مراد ہیں ابو جہل اور اس کے ساتھی، جو تین مقصد لے کر نکلے تھے، ’’ بَطَرًا ‘‘ اپنی اکڑ اور بڑائی ثابت کرنے کے لیے، ’’رِئَآءَ النَّاسِ ‘‘ لوگوں کو اپنی شان و شوکت اور شجاعت دکھانے کے لیے اور ’’يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ‘‘ اللہ کے راستے، یعنی اسلام سے لوگوں کو روکنے کے لیے، جبکہ مومن صرف اور صرف اللہ کا دین غالب کرنے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے نکلتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شان و شوکت کا اظہار، فخریہ اشعار اور شراب نوشی کی محفلوں کے بجائے انھیں موت کے پیالے پی کر، ذلت و رسوائی اور دردناک مصیبتوں کے ساتھ واپس لوٹنا پڑا۔ یہ لوگ گویا اپنے رب کے ساتھ مقابلے کے لیے نکلے تھے اور اس قادر و قہار کے احاطے سے تو ان کا کوئی چھوٹا بڑا عمل باہر نہ تھا، اس کے آگے ان کی کیا پیش جا سکتی تھی۔ خندق کے موقع پر کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کیا خوب کہا تھا : جَائَتْ سَخِيْنَةُ كَيْ تُغَالِبَ رَبَّهَا وَلَيُغْلَبَنَّ مُغَالِبُ الْغَلاَّبِ ’’ سخینہ یعنی قریش اپنے رب سے مقابلے کے لیے آئے اور اس زبردست غالب کا مقابلہ کرنے والا یقیناً ہر صورت مغلوب ہو گا۔‘‘