سورة الانفال - آیت 45

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اے ایمان والو! جب تم کسی مخالف فوج سے بھڑ جاؤ تو ثابت قدم رہو اور بکثرت اللہ کی یاد کرو تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو (١)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا....: ’’لَقِيْتُمْ ‘‘ ’’لِقَاءٌ‘‘ سے ہے، یعنی ملنا اور آمنے سامنے ہونا، اکثر لڑائی کی ملاقات کے لیے استعمال ہوتا ہے، یہاں بھی یہی مراد ہے۔ ’’ فِئَةً ‘‘ جماعت، گروہ۔ یہ’’فَاءَ يَفِيْئُ فَيْئًا ‘‘ (لوٹنا) سے مشتق ہے، کیونکہ ایک جماعت کے لوگ مدد کے لیے ایک دوسرے کی طرف لوٹ کر آتے ہیں۔ (راغب) قرآن مجید میں زیادہ تر یہ لفظ لڑنے والی جماعت کے لیے استعمال ہوا ہے، خواہ وہ کفار کی جماعت ہو یا مسلمانوں کی اور خواہ مستقل جماعت ہو یا کمک کے لیے آنے والی، مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ ﴾ [ البقرۃ : ۲۴۹ ] ’’کتنی ہی تھوڑی جماعتیں زیادہ جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غالب آ گئیں۔‘‘ اور دیکھیے سورۂ آل عمران (۱۳) اور سورۂ کہف (۴۳) اس آیت میں دشمن سے مقابلے کے وقت لڑائی کے آداب اور دلیری و شجاعت حاصل کرنے کے طریقے سکھائے۔ ان میں سے پہلی چیز ثابت قدمی اور ڈٹے رہنا ہے، کیونکہ اس کے بغیر میدانِ جنگ میں ٹھہرنا ممکن ہی نہیں۔ ثابت قدمی سے مراد انتہائی بے جگری سے لڑنا ہے، لہٰذا یہ آیت ﴿اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَيِّزًا اِلٰى فِئَةٍ﴾ [ الأنفال : ۱۶ ] کے خلاف نہیں، کیونکہ جنگی چال کے طور پر ایک طرف ہونا یا پیچھے ہٹنا فرار نہیں بلکہ ثابت قدمی ہی کی ایک صورت ہے۔ دوسری چیز اللہ کو کثرت سے یاد کرنا ہے، کیونکہ فتح و نصرت کا انحصار ظاہری اسباب پر نہیں بلکہ دل کی استقامت، اللہ کی یاد اور اس کا حکم بجا لانے پر ہے، اسی لیے طالوت کے ساتھیوں نے دشمن سے مڈ بھیڑ کے وقت یہ دعا کی تھی : ﴿رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ﴾ [ البقرۃ : ۲۵۰ ] ’’اے ہمارے رب ! ہم پر صبر انڈیل دے اور ہمارے قدم ثابت رکھ اور ان کافر لوگوں کے خلاف ہماری مدد فرما۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بدر اور دوسرے مقامات پر نہایت عجز و زاری سے اللہ کو یاد کیا اور اس سے مدد مانگی۔ مسلمان تھوڑے ہوں تو اللہ کی مدد طلب کریں اور زیادہ ہوں تو بھی اپنی طاقت اور کثرت کے بجائے صرف اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسا رکھیں اور اس کی یاد سے غافل نہ ہوں اور تیسری ہدایت اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری ہے جو ہر حال میں لازم ہے، مگر میدان جنگ میں اس کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے، کیونکہ وہاں تھوڑی سی نافرمانی بھی بعض اوقات نا قابل تلافی نقصان کا باعث بن جاتی ہے، جیسا کہ جنگ اُحد میں ہوا۔ اس میں امیر کی اطاعت بھی شامل ہے کہ وہ بھی اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے۔ چوتھی ہدایت یہ کہ آپس میں جھگڑا اور اختلاف نہ کرو، ورنہ فتح کے بعد شکست نظر آنے لگے گی، جس سے تمھارے دلوں میں بزدلی پیدا ہو جائے گی اور تم ہمت ہار بیٹھو گے اور تمھاری ہوا جاتی رہے گی، یعنی تمھارے درمیان پھوٹ دیکھ کر دشمنوں پر سے رعب اٹھ جائے گا اور وہ تم پر غلبہ پانے کے لیے اپنے اندر جرأت محسوس کرنے لگیں گے۔ پانچویں ہدایت یہ کہ صبر کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، اگر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹا تو اللہ تعالیٰ کی نصرت و معیت، یعنی خاص مدد اور خصوصی ساتھ بھی حاصل نہیں رہے گا۔ دیکھیے سورۂ آل عمران (۲۰۰)۔ عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگ کے موقع پر انتظار کیا، یہاں تک کہ سورج ڈھل گیا، پھر لوگوں میں کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا، فرمایا : ’’اے لوگو ! دشمن سے مڈ بھیڑ کی تمنا نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرتے رہو اور جب دشمن سے مقابلہ ہو جائے تو صبر کرو ( ڈٹے رہو) اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔‘‘ [بخاری، الجہاد والسیر، باب کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا لم یقاتل أول النھار....: ۲۹۶۵، ۲۹۶۶ ] حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں وہ شجاعت، صبر و ثبات اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی فرماں برداری تھی جو نہ اس سے پہلے کسی کو حاصل ہوئی نہ بعد میں ہو گی، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی برکت اور آپ کی اطاعت سے شرق و غرب کے ممالک کے ساتھ ساتھ دلوں کو بھی فتح کیا اور روم و فارس کے مقابلے میں نہایت تھوڑی تعداد کے باوجود سب پر غالب آئے، یہاں تک کہ اللہ کا بول سب پر بالا ہو گیا اور اس کا دین سب ادیان پر غالب آ گیا اور صرف تیس سال سے بھی کم عرصے میں اسلامی ممالک مشرق سے مغرب تک پھیل گئے، اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو اور انھیں راضی کرے اور ہمارا حشر بھی ان کے ساتھ کرے، وہ بے حد کرم اور عطا والا ہے۔