إِذْ يُرِيكَهُمُ اللَّهُ فِي مَنَامِكَ قَلِيلًا ۖ وَلَوْ أَرَاكَهُمْ كَثِيرًا لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ ۗ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
جب کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے تیرے خواب میں ان کی تعداد کم دکھائی، اگر ان کی زیادتی دکھاتا تو تم بزدل ہوجاتے اور اس کام کے بارے میں آپس میں اختلاف کرتے لیکن اللہ تعالیٰ نے بچا لیا وہ دلوں کے بھیدوں سے خوب آگاہ ہے (١)۔
1۔ اِذْ يُرِيْكَهُمُ اللّٰهُ فِيْ مَنَامِكَ قَلِيْلًا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ کافروں کی تعداد زیادہ نہیں ہے، اسی کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو دی، جس کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں ہمت اور ثابت قدمی پیدا ہو گئی۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی کا خواب تو وحی ہوتا ہے، پھر آپ کو وہ کم کیوں نظر آئے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ آپ کا خواب اس لحاظ سے سچا تھا کہ بعد میں ان کافروں میں سے بہت سے لوگ مسلمان ہو گئے، دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے ساتھ فرشتے بھی شامل تھے، اس لیے ان کے مقابلے میں کافروں کی تعداد کم ہی تھی یا معنوی طور پر یعنی اخلاقی اور روحانی طور پر ان میں قوت و طاقت نہ تھی، بظاہر وہ بہت تھے لیکن میدان کار زار میں ثبات و استقلال میں کمزور تھے، اس لیے گویا وہ تعداد میں بھی کم تھے۔ 2۔ وَ لَتَنَازَعْتُمْ فِي الْاَمْرِ: یعنی کوئی کہتا لڑو اور کوئی کہتا نہ لڑو، وہ بہت ہیں اور ہم کم۔ 3۔ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ سَلَّمَ: یعنی نہ ہمت ہار جانے کا موقع دیا اور نہ آپس میں لڑنے جھگڑنے کا۔