كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِن بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ
جیسا کہ آپ کے رب نے آپ کے گھر سے حق کے ساتھ آپ کو روانہ کیا (١) اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس کو گراں سمجھتی تھی (٢)
كَمَا اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَيْتِكَ....: یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی بات ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ یہ بھی اسی طرح ہے جیسے تیرے رب نے تجھے تیرے گھر سے حق کے ساتھ نکالا۔ مفسرین نے اس ’’ كَمَا ‘‘ (جس طرح) کی کئی توجیہیں کی ہیں، بعض نے وہ بیس تک پہنچا دی ہیں، البتہ صاحب کشاف نے صرف دو توجیہیں کی ہیں، جن میں سے زیادہ واضح یہ ہے کہ یہاں مبتدا محذوف ہے اور عبارت یوں ہو گی ’’ هٰذِهِ الْحَالُ كَحَالِ إِخْرَاجِكَ يَعْنِيْ اَنَّ حَالَهُمْ فِيْ كَرَاهِيَةِ مَا رَأَيْتَ مِنْ تَنْفِيْلِ الْغَزْوَةِ مِثْلُ حَالِهِمْ فِيْ كَرَاهَةِ خُرُوْجِكِ لِلْحَرْبِ ‘‘ یعنی غزوۂ بدر سے حاصل ہونے والی غنیمت کی تقسیم کے بارے میں آپ کی رائے اور فیصلے کو ناگوار سمجھنے میں ان کا حال ایسا ہی ہے جس طرح ان کا حال آپ کے لڑائی کے لیے نکلنے کے بارے میں تھا، حالانکہ دونوں ہی میں آپ کے لیے اور مسلمانوں کے لیے خیر ہی خیر تھی۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’غنیمت کا یہ جھگڑا بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ نکلتے وقت عقل سے تدبیریں کرنے لگے اور آخر کار صلاح وہی ٹھہری جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تو ہر کام میں یہی اختیار کرو کہ حکم برداری میں اپنی عقل کو دخل نہ دو۔‘‘ (موضح)