إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کردیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں (١)
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ....: اوپر فرمایا کہ اطاعت ہے تو ایمان ہے، اب ان آیات میں ایمان والوں کی چند صفات بیان فرمائیں۔ سرفہرست یہ ہے کہ جب ان کے تنازعات کے درمیان اللہ کا ذکر یا اس کا حکم آ جائے تو ان کے دل دہل جاتے ہیں اور وہ اس کی نافرمانی سے کانپ اٹھتے ہیں۔ دوسری علامت یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کے احکام بیان کیے جائیں تو وہ انھیں سچے دل سے مانتے ہوئے ان کی اطاعت کرتے ہیں، جس سے ان کے ایمان میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان ایک ہی حالت پر نہیں رہتا بلکہ اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ دلائل کو دیکھ کر یقین و تصدیق میں بھی اور اعمال کی کمی بیشی کے لحاظ سے بھی۔ تیسری علامت یہ ہے کہ جس کام کا انھیں حکم دیا جاتا ہے وہ اس کے تمام ذرائع اور اسباب تو اختیار کرتے اور اپنی کوشش پوری کرتے ہیں، مگر ان کا بھروسا ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے، اپنی تیاری یا اسباب پر نہیں۔ اپنی پوری کوششوں کے بعد وہ اس کے انجام کو اللہ کے سپرد کر دیتے ہیں۔ ان کی چوتھی علامت یہ ہے کہ وہ نماز کو اس کے پورے حقوق اور آداب کے ساتھ ہمیشہ ادا کرتے ہیں اور پانچویں علامت یہ ہے کہ اپنے اموال میں سے اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق بھی ادا کرتے ہیں، جن لوگوں میں یہ پانچ علامات پائی جائیں اللہ تعالیٰ نے صرف انھی کو ’’الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا‘‘ یعنی پکے سچے مومن قرار دیا ہے، ایسے ہی مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند درجات بھی ہوں گے، بڑی بخشش بھی اور باعزت روزی بھی۔