خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ
آپ درگزر اختیار کریں (١) نیک کام کی تعلیم دیں (٢) اور جاہلوں سے ایک کنارہ ہوجائیں (٣)۔
1۔ خُذِ الْعَفْوَ: یعنی توحید کی دعوت کے جواب میں آپ کو مشرکوں اور جاہلوں کی طرف سے بہت تکلیف اٹھانا پڑے گی۔ دیکھیے آل عمران (۱۸۶) اور بقرہ (۱۰۹) آپ اس کے مقابلے میں درگزر سے کام لیں۔ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حسن اخلاق کی تعلیم دی ہے اور آپ کے واسطے سے ہر وہ شخص مخاطب ہے جو اسلام کی دعوت کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے، جیسے فرمایا : ﴿وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ ﴾ [ النحل : ۱۲۵ ] ’’اور ان سے اس طریقے سے بحث کر جو سب سے اچھا ہے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ﴾ [ آل عمران : ۱۵۹ ] ’’اور اگر تو بدخلق سخت دل ہوتا تو یقیناً وہ تیرے گرد سے منتشر ہو جاتے۔‘‘ 2۔ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ: ’’عَرَفَ يَعْرِفُ‘‘ سے مصدر بمعنی معروف ہے، وہ بات جس کا اچھا ہونا فطرتِ انسانی پہچانتی ہے اور شریعت اس کی تائید کرتی ہے۔ یعنی درگزر کا مطلب یہ نہیں کہ آپ انھیں نیکی کا حکم دینا چھوڑ دیں، بلکہ عفو و درگزر کا تعلق حسن اخلاق سے ہے۔ 3۔ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ: اگر وہ ضد پر اڑ کر مخالفانہ رویہ اختیار کریں اور بے فائدہ تکرار کریں تو بجائے الجھنے کے آپ خاموشی اختیار کریں، خواہ وہ اس خاموشی کو کوئی معنی پہنا دیں۔ امید ہے کہ اس سے ان کے رویے میں تبدیلی پیدا ہو گی اور ان کی جارحیت کا وار خالی جائے گا۔ دیکھیے سورۂ قصص (۵۵) اور فرقان (۶۳) بعض علماء نے فرمایا کہ عفو و درگزر کا یہ حکم مکہ میں تھا، مدینہ میں جا کر قتال اور اقامتِ حدود کا حکم نازل ہوا تو یہ منسوخ ہو گیا۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۰۹) مگر اس کے بعد بھی جو لوگ مسلمانوں میں سے جہالت اختیار کریں، جیسے منافق یا وہ کفار جن سے جنگ نہیں ہو رہی، ان سے درگزر کرنے، نیکی کا حکم دینے اور ان کی جہالت سے اعراض کا حکم اب بھی ہے، بلکہ دعوت کے وقت ان چیزوں کا خیال ہمیشہ رکھنا پڑے گا۔ ہاں حدود کے مجرموں یا جنگ پر آمادہ لوگوں سے ان کے لائق معاملہ کیا جائے گا اور اس کے واضح احکام قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔