مَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِي ۖ وَمَن يُضْلِلْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
جس کو اللہ ہدایت کرتا ہے سو ہدایت پانے والا وہی ہوتا ہے اور جسے وہ گمراہ کردے سو ایسے ہی لوگ خسارے میں پڑنے والے ہیں (١)۔
مَنْ يَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِيْ....: ہدایت کا نور اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، وہ اس کا مالک ہے، جسے چاہے عطا کر دے اور جسے چاہے عطا نہ کرے اور وہ ضلالت کے اندھیروں میں بھٹکتا رہے۔ یہ مسئلۂ تقدیر ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس پر بھی ایمان لانا واجب ہے کہ وہ کسی کو ہدایت نہ دے تو ظالم نہیں، کیونکہ مالک جسے چاہے اپنی چیز دے جسے چاہے نہ دے اور وہ تو ایسا مالک ہے جس سے کوئی پوچھنے کی جرأت بھی نہیں کر سکتا، فرمایا : ﴿ لَا يُسْـَٔلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَ هُمْ يُسْـَٔلُوْنَ ﴾ [ الأنبیاء : ۲۳ ] ’’اس سے نہیں پوچھا جاتا اس کے متعلق جو وہ کرے اور ان سے پوچھا جاتا ہے۔‘‘ ہاں، یہ بات ضرور ہے کہ اس نے جو کچھ کیا ہے وہ عین عدل ہے، کیونکہ وہ ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا، فرمایا : ﴿ وَ مَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِ ﴾ [ حٰمٓ السجدۃ : ۴۶ ] ’’اور تیرا رب اپنے بندوں پر ہر گز کوئی ظلم کرنے والا نہیں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہر خطبہ میں حمد و ثنا کے بعد فرمایا کرتے تھے : (( مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَ مَنْ يُّضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ)) [ مسلم، الجمعۃ، باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ :۸۶۸، عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما ] ’’جسے اللہ سیدھی راہ پر لگائے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی سیدھی راہ پر نہیں لگا سکتا۔‘‘