أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ ۖ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ
یا یوں کہو کہ پہلے پہلے شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا اور ہم ان کے بعد ان کی نسل میں ہوئے سو کیا ان غلط راہ والوں کے فعل پر تو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا ؟ (١)۔
اَوْ تَقُوْلُوْۤا اِنَّمَا اَشْرَكَ....: یا یہ عذر پیش کرو کہ ہم تو اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی شرک کی راہ پر چلتے رہے، ہمارا کیا قصور ہے، مطلب یہ ہے کہ شرک کے بارے میں مقلد کا کوئی عذر قبول نہیں ہو گا۔ ’’الْمُبْطِلُوْنَ ‘‘ سے مراد آبا و اجداد ہیں، یعنی یہ کہنا ہے کہ اصل مجرم وہی ہیں ہم نہیں، اس قسم کے عذر کا وہاں کوئی موقع نہیں ہو گا، کیونکہ ابتداءً ہر شخص کی فطرت میں اپنے رب کی پہچان اور اس کی توحید رکھ دی گئی ہے، پھر اس کی یاد دہانی اور تفسیر و تشریح کے لیے رسول بھیجے اور کتابیں نازل فرمائی گئی ہیں اور کائنات میں اس کے دلائل رکھ دیے گئے ہیں اور ان کے فہم کے لیے عقل بھی عنایت کی گئی ہے۔