سورة البقرة - آیت 105

مَّا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا الْمُشْرِكِينَ أَن يُنَزَّلَ عَلَيْكُم مِّنْ خَيْرٍ مِّن رَّبِّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

نہ تو اہل کتاب کے کافر اور نہ مشرکین چاہتے ہیں کہ تم پر تمہارے رب کی کوئی بھلائی نازل ہو (ان کے اس حسد سے کیا ہوا) اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنی رحمت خصوصیت سے عطا فرمائے، اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اللّٰهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهٖ....: مشرکین عرب کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک عام آدمی تھے اور وہ اپنے کسی عظیم سردار کے بجائے ایک عام آدمی پر وحی کا نزول ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ دیکھیے سورۂ زخرف (۳۱) اور اہل کتاب اللہ کی اس رحمت کو اپنی نسل سے باہر نہیں دیکھ سکتے تھے۔ فرمایا کہ اللہ اپنی رحمت کے ساتھ جسے چاہے خاص کرے۔ یہاں رحمت سے مراد نبوت ہے، جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہے، وہ نہ کسی کی عظمت کی بنیاد پر ملتی ہے، نہ نسل پر اور نہ کسی کے کسب، محنت اور چلہ کشی پر، جیسا کہ قادیانی دجال کا کہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰٓئِكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ ﴾ [ الحج : ۷۵ ] ’’اللہ فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے چنتا ہے اور لوگوں میں سے بھی۔‘‘