وَقَطَّعْنَاهُمْ فِي الْأَرْضِ أُمَمًا ۖ مِّنْهُمُ الصَّالِحُونَ وَمِنْهُمْ دُونَ ذَٰلِكَ ۖ وَبَلَوْنَاهُم بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
اور ہم نے دنیا میں ان کی مختلف جماعتیں کردیں۔ بعض ان میں نیک تھے اور بعض ان میں اور طرح کے تھے اور ہم ان کو خوش حالیوں اور بد حالیوں سے آزماتے رہے شاید باز آجائیں (١)۔
1۔ وَ قَطَّعْنٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اُمَمًا: تاکہ ان کی کوئی اجتماعی قوت وجود میں نہ آ سکے۔ اس لیے یہودی تمام دنیا میں ٹکڑوں کی شکل میں پھیلے ہوئے ہیں اور جہاں رہتے ہیں اپنی سود خوری اور اس ملک کے خلاف سرگرمیوں اور جاسوسی کی وجہ سے نفرت کی نگاہوں کا نشانہ بنے رہتے ہیں، پھر ان کی برتری کی خواہش اور دنیا کی دولت اور حکومت کو اپنے قبضے میں لینے کی خواہش کے لیے ان کی سازشیں یہودی پروٹوکول کی صورت میں دنیا کے سامنے آ چکی ہیں۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی اور کتنے ہی ملکوں سے انھیں نکالا گیا اور تہ تیغ کیا گیا، اب اگرچہ جرمنی سے غداری کے انعام میں برطانیہ اور امریکہ کے بل بوتے پر وہ عربوں کے قلب میں اسرائیل کے خنجر کی صورت میں پیوست ہو چکے ہیں، مگر ان کی اصل قوت امریکہ اور برطانیہ وغیرہ ہی ہیں۔ یہاں جمع ہو کر بھی وہ ظلم و ستم سے باز آنے کے بجائے فلسطینی عربوں پر ناقابل بیان مظالم ڈھا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کے مؤاخذے میں اس دیر کا انجام کیا ہوتا ہے، کیونکہ وہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ 2۔ مِنْهُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَ مِنْهُمْ دُوْنَ ذٰلِكَ: ان میں سے کچھ نیک ہیں، یعنی وہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے، یا جیسے وہ لوگ جنھوں نے ہفتے کے روز مچھلی کے شکار سے منع کیا تھا۔ دیکھیے آل عمران ( ۱۱۳ تا ۱۱۵) اور کچھ ان کے علاوہ، یعنی نیک نہیں بلکہ شریر اور بدکار، جیسے سود، رشوت اور دوسرے طریقوں سے حرام کھانے والے اور انبیاء تک کو قتل کر ڈالنے والے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچاننے کے باوجود آپ کی مخالفت کرنے والے۔ 3۔ وَ بَلَوْنٰهُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَ السَّيِّاٰتِ....: کبھی راحت اور آرام دیا اور کبھی تکلیف میں مبتلا کر دیا، اسی طرح کبھی خوش حالی عطا فرمائی، کبھی فقر و فاقہ سے دو چار کر دیا، تاکہ وہ باز آ جائیں، یعنی اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور تورات کے احکام پر عمل کریں۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’یہود کی دولت برہم ہوئی تو آپس کی مخالفت سے ہر طرف نکل گئے اور مختلف مذاہب پیدا ہوئے، یہ احوال اس امت کو سنایا کہ یہ سب کچھ ان پر بھی ہو گا۔ حدیث میں فرمایا ہے کہ اس امت میں بعض بندر اور سور ہو جائیں گے۔ اللہ گمراہی سے پناہ دے۔‘‘ (موضح) یہ حدیث بخاری میں ہے، فرمایا : (( وَ يَمْسَخُ آخَرِيْنَ قِرَدَةً وَ خَنَازِيْرَ إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ )) [ بخاری، الأشربہ، باب ما جاء فیمن یستحل الخمر....: ۵۵۹۰ ] ’’اور ان میں سے بہت سوں کو قیامت تک کے لیے بندروں اور خنزیروں کی صورت میں مسخ کر دے گا۔‘‘