وَاخْتَارَ مُوسَىٰ قَوْمَهُ سَبْعِينَ رَجُلًا لِّمِيقَاتِنَا ۖ فَلَمَّا أَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ أَهْلَكْتَهُم مِّن قَبْلُ وَإِيَّايَ ۖ أَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَاءُ مِنَّا ۖ إِنْ هِيَ إِلَّا فِتْنَتُكَ تُضِلُّ بِهَا مَن تَشَاءُ وَتَهْدِي مَن تَشَاءُ ۖ أَنتَ وَلِيُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۖ وَأَنتَ خَيْرُ الْغَافِرِينَ
اور موسیٰ (علیہ السلام) نے ستر آدمی اپنی قوم میں سے ہمارے وقت معین کے لئے منتخب کئے، سو جب ان کو زلزلہ نے آپکڑا (١) تو موسیٰ (علیہ السلام) عرض کرنے لگے کہ اے میرے پروردگار اگر تجھ کو یہ منظور ہوتا تو اس سے قبل ہی ان کو اور مجھ کو ہلاک کردیتا، کیا تو ہم میں سے چند بیوقوفوں کی حرکت پر سب کو ہلاک کردے گا ؟ یہ واقعہ محض تیری طرف سے امتحان ہے، ایسے امتحانات سے جس کو تو چاہے گمراہی میں ڈال دے اور جس کو چاہے ہدایت پر قائم رکھے۔ تو ہی ہمارا کارساز ہے پس ہم پر مغفرت اور رحمت فرما اور تو سب معافی دینے والوں سے زیادہ اچھا ہے (٢)۔
1۔ وَ اخْتَارَ مُوْسٰى قَوْمَهٗ....: موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر شدہ وقت پر اپنے ساتھ لے جانے کے لیے اپنی قوم میں سے ستر آدمیوں کا انتخاب فرمایا، ظاہر ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے ان میں سے بہترین آدمیوں ہی کا انتخاب کیا ہو گا، مگر وہاں جا کر ان پر اللہ کا ایسا غضب ہوا کہ وہ سب زلزلے سے مر گئے۔ اس عذاب کا باعث کیا تھا؟ مفسرین نے مختلف وجوہ بیان کی ہیں، جن میں سے سب سے راجح وہی بات ہے جو سورۂ بقرہ (۵۵) میں ذکر ہوئی ہے کہ انھوں نے کہا تھا : ’’اے موسیٰ! جب تک ہم اللہ کو کھلم کھلا دیکھ نہ لیں تیرا یقین ہر گز نہیں کریں گے۔‘‘ اس گستاخی پر ان پر بجلی گری جس سے وہ سب مر گئے۔ یہاں ’’الرَّجْفَةُ ‘‘ (زلزلے) کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے کہ بجلی کی کڑک سے، خصوصاً جب وہ بصورت عذاب ہو، زلزلہ آنا معمول کی بات ہے۔ 2۔ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ اَهْلَكْتَهُمْ مِّنْ قَبْلُ وَ اِيَّايَ: یعنی اگر تو چاہتا تو ان ستر آدمیوں کو بنی اسرائیل سے نکلنے سے پہلے وہیں ہلاک کر دیتا، تاکہ بنی اسرائیل ان کی ہلاکت اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے اور مجھ پر الزام نہ رکھ سکتے کہ میں نے انھیں ہلاک کر دیا ہے اور تو چاہتا تو میری قوم کی گستاخی کی پاداش میں مجھے بھی ہلاک کر دیتا، تو نے جب اس وقت ہم پر رحم کرتے ہوئے ایسا نہیں کیا تو اب بھی ہمیں بخش دے، ہم پر رحم فرما اور انھیں ہلاک نہ کر۔ 3۔ اَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَآءُ مِنَّا: بے وقوفوں کے فعل سے مراد بچھڑے کی عبادت بھی ہو سکتی ہے، مگر زیادہ واضح بے وقوفی موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کو صاف دکھانے کا مطالبہ اور شرط ہے کہ ہم اس کے بغیر تیری بات کا یقین ہی نہیں کریں گے۔ 4۔ بِمَا فَعَلَ السُّفَهَآءُ مِنَّا: معلوم ہوا کہ نہ بچھڑے کی عبادت تمام بنی اسرائیل نے کی تھی اور نہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا مطالبہ ستر کے ستر نے کیا تھا۔ یہ ان کے جاہل اور بے وقوف لوگوں کا فعل تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ پروردگارا ! کیا تو ہم میں سے بے وقوف لوگوں کے فعل کی وجہ سے سب کو ہلاک کر دے گا۔ 5۔ اِنْ هِيَ اِلَّا فِتْنَتُكَ: یعنی جنھوں نے بچھڑے کی پوجا کی یا تجھے آنکھوں سے دیکھنے کا مطالبہ کیا، حقیقت میں یہ سب کام تیری طرف سے ایک آزمائش تھے، تو جس طرح چاہتا ہے امتحان لیتا ہے، پھر اس کے ذریعے سے جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے۔ (ابن کثیر) اس دعا کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں دوبارہ زندہ کر دیا۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۵۶)۔