وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۖ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَىٰ عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا ۖ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُوا يَعْرِشُونَ
اور ہم نے ان لوگوں کو جو بالکل کمزور شمار کئے جاتے تھے (١) اس سرزمین کے پورب پچھم کا مالک بنا دیا جس میں ہم نے برکت رکھی اور آپ کے رب کا نیک وعدہ بنی اسرائیل کے حق میں ان کے صبر کی وجہ سے پورا ہوگیا (٢) اور ہم نے فرعون کے اور اس کی قوم کے ساختہ پرداختہ کارخانوں کو اور جو کچھ وہ اونچی اونچی عمارتیں بنواتے تھے سب کو درہم برہم کردیا (٣)۔
1۔ وَ اَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِيْنَ كَانُوْا يُسْتَضْعَفُوْنَ: موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے دو وعدے کیے تھے، دشمن کی ہلاکت اور ملک کی وراثت و خلافت۔ چنانچہ پہلا وعدہ پورا ہونے کے بعد اب یہاں دوسرے وعدے کی تکمیل کا بیان ہے۔ یہاں مبارک سرزمین سے شام کی سرزمین مراد ہے اور یہ وعدہ موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد یوشع علیہ السلام کے دور میں پورا ہونا شروع ہوا، جب انھوں نے عمالقہ سے جہاد کرکے بعض علاقے اپنے قبضے میں لے لیے مگر پورا ملک شام داؤد اور سلیمان علیھما السلام کے زمانے میں قبضے میں آیا۔ 2۔ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَهَا الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا: ’’مَشَارِقَ الْاَرْضِ ‘‘ یہ’’ يُسْتَضْعَفُوْنَ‘‘ کا مفعول نہیں بلکہ’’اَوْرَثْنَا ‘‘ کا مفعول ہے۔ کیونکہ بنی اسرائیل کو زیادہ سے زیادہ کمزور اور بے بس تو مصر میں بنایا گیا تھا، شام میں نہیں۔ ارض مبارک سے مراد قرآن مجید میں عام طور پر سرزمین شام لی گئی ہے۔ دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (ا)، انبیاء (۷۱، ۸۱) اور سبا (۱۸) مشارق و مغارب جمع لانے کا مقصد یہ ہے کہ سرزمین شام کے تمام مشرقی اور مغربی علاقوں پر ان کی حکومت ہوگئی۔ کیونکہ ہر روز زمین کے ہر حصے میں سورج کے طلوع و غروب کا وقت اور جگہ بدلتے رہتے ہیں۔ بعض اہل علم نے مصر اور شام دونوں مراد لیے ہیں اور لکھا ہے کہ فرعون کی تباہی کے بعد بنی اسرائیل مدتوں مصر پر حکمران رہے۔ قرآن کریم کی بعض آیات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ دیکھیے سورۂ دخان(۲۸)، شعراء (۵۹) اور قصص (۵) اس صورت میں ’’بٰرَكْنَا فِيْهَا ‘‘ سے مراد سرزمین مصر و شام کا نہایت زرخیز اور آباد ہونا ہو گا۔ 3۔ وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى....: ’’الْحُسْنٰى ‘‘ یہ ’’اَلْاَحْسَنُ‘‘ کی مؤنث ہے جو تفضیل کا صیغہ ہے۔ بہترین بات سے مراد اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ہم تمھارے دشمنوں کو ہلاک کریں گے اور تمھیں اس سرزمین کی وراثت اور حکومت عطا فرمائیں گے۔ بنی اسرائیل کے ساتھ وعدہ پورا کرنے کا باعث اللہ تعالیٰ نے ان کا صبر بیان فرمایا کہ اتنی سختیوں کے باوجود انھوں نے فرعون کو رب نہیں مانا، اپنے مسلمان ہونے پر قائم رہے، اگرچہ غلامی اور محکومیت کی وجہ سے ان کے مزاج اور دینی حالت میں کئی خرابیاں آ چکی تھیں، مگر انھوں نے اسلام کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ 4۔ وَ دَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَ قَوْمُهٗ: ’’يَصْنَعُ ‘‘ سے مراد ان کی مصنوعات، کارخانے، عمارتیں اور ہتھیار وغیرہ ہیں اور ’’يَعْرِشُوْنَ ‘‘کا معنی اگرچہ انگور وغیرہ کے لیے چھپر وغیرہ بنانا بھی ہوتا ہے، مگر مصر میں چونکہ چھپر والے انگوروں کا رواج نہیں تھا، اس لیے اس سے مراد وہ بلند عمارتیں ہیں جو وہ بناتے تھے۔ 5۔ وَ جٰوَزْنَا بِبَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ الْبَحْرَ: فرعون سے نجات پا کر سمندر پار کرنے کا یہ مبارک دن عاشوراء (دس محرم) تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے شکر ادا کرنے کے لیے اس دن کا روزہ رکھا اور یہودی بھی اس دن روزہ رکھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں سے روزے کی وجہ پوچھ کر فرمایا : ’’ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام پر حق رکھتے ہیں۔‘‘ چنانچہ خود بھی روزہ رکھا اور تمام مسلمانوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ آئندہ سال رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کا روزہ نفل ہو گیا، جو چاہے رکھے جو چاہے نہ رکھے۔ [ بخاری، التفسیر، باب ﴿ و لقد أوحینا إلی موسیٰ ...﴾ :۴۷۳۷، ۱۵۹۲، عن ابن عباس وعائشۃ رضی اللّٰہ عنھم ] اہل مکہ بھی جاہلیت میں اس دن کا روزہ رکھتے تھے اور اس دن کعبہ پر نیا غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ [ بخاری، الحج، باب قول اللّٰہ تعالٰی : ﴿ جعل اللہ الکعبۃ....﴾ : ۱۵۹۲، عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا ] آخر عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روزے کی فضیلت کے حصول اور یہود کی مخالفت کی خاطر فرمایا : (( لَئِنْ بَقِيْتُ اِلٰی قَابِلٍ لَاَصُوْمَنَّ التَّاسِعَ )) ’’اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو ۹ کا روزہ رکھوں گا۔‘‘ مگر آئندہ سال آنے سے پہلے آپ فوت ہو گئے۔ [ مسلم، الصیام، باب أي یوم یصام فی عاشوراء :134؍1134، عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما ]حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی اس دن ہوئی مگر دین اس سے پہلے مکمل ہو چکا تھا، ان کی شہادت کی وجہ سے دین میں کوئی بھی اضافہ، مثلاً ماتم یا جلوس یا سبیلیں وغیرہ لگانا بدعت ہو گا۔ 6۔ فَاَتَوْا عَلٰى قَوْمٍ يَّعْكُفُوْنَ عَلٰى اَصْنَامٍ لَّهُمْ: پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کے مظالم پر بنی اسرائیل کے صبر کی تعریف اور اس کی وجہ سے ان پر اپنے مزید انعامات کا ذکر فرمایا تھا۔ اب یہاں سے ان کی خوش حالی کے دور کی آزمائش کا ذکر شروع ہوتا ہے۔ اس سے پہلے اسی سورت میں ہر قوم کی تنگی اور آسانی کے ساتھ آزمائش کا ذکر ہوا تھا۔ (دیکھیے اعراف : ۹۴) اور اس بات کا بھی کہ ہم نے ان میں سے اکثرکے لیے کوئی عہد نہیں پایا اور ان کے اکثر کو ہم نے فاسق ہی پایا۔ دیکھیے سورۂ اعراف(۱۰۲) آزادی ملنے کے بعد بنی اسرائیل کی بدعہدی اور فسق کا اور اس کے نتیجے میں انھیں ملنے والی سزا کا تذکرہ بنی اسرائیل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کی دعوت اور آپ کی مخالفت سے باز رہنے کی نصیحت کے لیے کیا گیا ہے۔ اس میں امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی نصیحت ہے کہ تم لوگ بھی ان کے نقش قدم پر نہ چل نکلنا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں سمندر سے پار کر دیا تو انھوں نے مشرق کی طرف بیت المقدس ارضِ شام کا رخ کیا، ابھی چلے ہی تھے کہ ان کا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جو اپنے کچھ بتوں پر مجاور بنے بیٹھے تھے، یعنی ان کی پوجا کر رہے تھے۔ یہ بت بزرگوں کے تھے یا گائے وغیرہ کے، قرآن نے ذکر نہیں فرمایا اور نہ ہی حدیث میں اس کا ذکر ہے۔ بنی اسرائیل کا جہل اور کفر دیکھیے کہ موسیٰ علیہ السلام کے اتنے واضح معجزات اور اللہ تعالیٰ کے انعامات دیکھنے کے بعد انھوں نے گستاخانہ لہجے میں نام لیتے ہوئے ’’اے موسیٰ‘‘ کہہ کر مطالبہ کر دیا کہ ہمارے لیے بھی ان کے معبودوں جیسے معبود بنا دو۔ اس کی وجہ لمبے عرصے تک غلامی کی وجہ سے اہل مصر کے مشرکانہ عقائد کا ذہنوں میں جاگزیں ہونا تھا۔ بعض علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ بنی اسرائیل چونکہ موحد تھے، اس لیے ان کی بت بنانے کے اس مطالبے سے یہ غرض نہ تھی کہ وہ شرک کریں، بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ ہم اس بت کی تعظیم سے اللہ کا تقرب چاہیں گے، وہ سمجھے کہ یہ شرک نہیں ہے، حالانکہ اس کا شرک ہونا انبیاء علیھم السلام کا اجماعی مسئلہ ہے، کیونکہ اگر یہ شرک نہ ہو تو مکہ کے مشرک اور دوسرے بہت سے مشرک بھی موحد ہی رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک جگہ ذکر فرمایا ہے : ﴿ وَ يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَ لَا يَنْفَعُهُمْ وَ يَقُوْلُوْنَ هٰؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰهِ قُلْ اَتُنَبِّـُٔوْنَ اللّٰهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِي الْاَرْضِ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ﴾ [ یونس : ۱۸ ] ’’اور وہ اللہ کے سوا ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو انھیں نہ نقصان پہنچاتی ہیں اور نہ انھیں نفع دیتی ہیں اور کہتے ہیں یہ لوگ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ کہہ دے کیا تم اللہ کو اس چیز کی خبر دیتے ہو جسے نہ وہ آسمانوں میں جانتا ہے اور نہ زمین میں؟ وہ پاک ہے او ربلند ہے اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں۔‘‘ اور دوسری آیت میں ہے: ﴿ وَ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖ اَوْلِيَآءَ مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَاۤ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى ﴾[الزمر :۳ ] ’’اور وہ لوگ جنھوں نے اس کے سوا حمایتی بنا رکھے ہیں (وہ کہتے ہیں) ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں، اچھی طرح قریب کرنا۔‘‘ 7۔ اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ: یعنی افسوس کہ تم اللہ تعالیٰ کی شان نہیں پہچانتے، اللہ تعالیٰ کی ذات تو وہ ہے کہ نہ اس کی کوئی مورت بن سکتی ہے اور نہ اس کی عبادت میں کسی کو شریک ٹھہرایا جا سکتا ہے، سو یہ مطالبہ سراسر جاہلانہ اور مشرکانہ ہے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جاہل آدمی نظر نہ آنے والے رب کی عبادت کر کے تسکین نہیں پاتا جب تک سامنے ایک صورت نہ ہو، بنی اسرائیل نے جب وہ قوم دیکھی کہ گائے کی صورت کی پوجا کرتے تھے تو انھیں بھی یہ ہوس آئی، آخر سونے کا بچھڑا بنایا اور پوجا۔‘‘ (موضح) آیت میں گائے کی صورت کی صراحت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان کی بنیاد بن دیکھے رب تعالیٰ پر ایمان لانا ہے، جیسا کہ سورۂ بقرہ (۳) میں ہے : ﴿ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ﴾ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کی لذت نے موسیٰ علیہ السلام کے دل کو پروردگار کو دیکھنے کی درخواست پر مجبور کیا، تو اللہ تعالیٰ نے انھیں مشاہدہ کروا کر واضح کر دیا کہ دنیا میں کوئی بھی اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اب پیغمبر کا بن دیکھے رب پر ایمان دیکھیے اور قوم کا نظر آنے والے خدا کا مطالبہ دیکھیے! دراصل شرک کی بنیاد ہی یہ ہے کہ معبود آنکھوں کے سامنے نظر آنا ضروری ہے، اقبال نے کیا خوب کہا ہے ذوق حضور در جہاں رسم صنم گری نہاد عشق فریب می دہد جان امیدوار را یعنی معبود کو اپنے سامنے حاضر دیکھنے کے ذوق ہی نے دنیا میں بت بنانے کی رسم کی بنیاد رکھی، کیونکہ عشق امید رکھنے والی جان کو فریب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ افسوس کہ بنی اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کچھ مسلمانوں نے تو پختہ قبریں بنا کر ان پر مجاورت کے ذریعے سے اپنا یہ ذوق پورا کیا اور اکثر لوگوں نے معرفت کے نام پر اپنے شیخ کا تصور ہر لمحے آنکھوں کے سامنے اس طرح رکھا کہ وہ عدم موجودگی میں بھی انھیں آنکھوں سے نظر آنے لگا اور وہ اپنے خیال میں اس سے پوچھ کر ہر کام کرنے لگے۔ اس کا نام انھوں نے فنا فی الشیخ ہونا رکھا، پھر کچھ آگے بڑھے اور اسی صورت کو رسول قرار دے کر انھیں آنکھوں سے دیکھنا، ان سے باتیں کرنا اور ہدایات لینا شروع کر دیا اور اسے فنا فی الرسول قرار دیا، پھر کچھ اور آگے بڑھے تو اسی صورت کو رب قرار دے کر ہر لمحے آنکھوں کے سامنے رکھ لیا اور اسے فنا فی اللہ کہہ کر شیخ کی صورت کے خدا ہونے اور ہر وقت اس کے دیدار اور اس سے ہم کلام ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ انتہا یہاں جا کر ہوئی کہ اپنے آپ کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک ہو جانے کا دعویٰ کر دیا۔ کسی نے کہا ’’أَنَا الْحَقُّ ‘‘ میں خدا ہوں۔ کسی نے کہا ’’سُبْحَانِيْ مَا أَعْظَمُ شَأْنِيْ‘‘ میں سبحان ہوں، میری شان کس قدر عظیم ہے، اور کسی نے کہا : من تو شدم تو من شدی من جاں شدم تو تن شدی تا کس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری یعنی ’’میں تو ہو گیا، تو میں ہو گیا، میں جان بن گیا تو جسم بن گیا، تاکہ اس کے بعد کوئی یہ نہ کہے کہ میں اور ہوں اور تو کوئی دوسرا ہے۔‘‘ شرک اور مشرکین کا یہ سارا گورکھ دھندا دماغ کی خرابی اور وہم و خیال پر مبنی ہے اور ان کی تمام ریاضتیں دماغ کو خراب کرنے کے لیے ہیں، جو ہندو جوگیوں اور نصرانی راہبوں سے لی گئی ہیں۔ جن کے نتیجے میں وہ کچھ آنکھوں کو دکھائی دینے لگتا ہے جو محض گمان اور خیال کی پیداوار ہوتا ہے اور جس کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ترک حیواناتِ جلالی و جمالی کی اصطلاح بنا کر اللہ تعالیٰ کی بہت سی نعمتوں، مثلاً گوشت، دودھ، دہی، گھی اور شہد چھوڑنے سے دماغ میں مزید خشکی اور خرابی پیدا ہو کر انھیں نظر نہ آنے والی چیزیں بھی نظر آنے لگیں۔ تمام بت پرست اسی خیال اور خواہشِ نفس کے پیچھے لگ کر خیالی خداؤں کی پرستش کر رہے ہیں، کوئی پتھر کی بنی ہوئی صورت سامنے رکھ کر اور کوئی اس کا تصور سامنے رکھ کر، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ہدایت قرآن و حدیث میں قرب الٰہی کے لیے ان ریاضتوں، سلسلوں اور ذریعوں کا کوئی ذکر نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے وہم و گمان اور خواہشِ نفس کا اتباع کہہ کر بت پرستی قرار دیا ہے۔ دیکھیے سورۂ نجم (۱۹ تا ۲۵) اگر اللہ تعالیٰ کے قرب اور دیدار کا طریقہ یہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ضرور بتا دیتے۔ جب موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر دنیا میں رب تعالیٰ کا دیدار برداشت نہیں کر سکے تو کسی اور بے چارے کی کیا مجال ہے۔