وَقَالُوا مَهْمَا تَأْتِنَا بِهِ مِنْ آيَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَا فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ
اور یوں کہتے کیسی ہی بات ہمارے سامنے لاؤ کہ ان کے ذریعے سے ہم پر جادو چلاؤ جب بھی تمہاری بات ہرگز نہ مانیں گے (١)
وَ قَالُوْا مَهْمَا تَاْتِنَا بِهٖ....: اوپر کی آیت میں ان کی یہ جہالت بیان فرمائی کہ وہ حوادث کی نسبت اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کی طرف کرنے کے بجائے دوسرے اسباب کی طرف کرتے ہیں، اب اس آیت میں ان کی دوسری جہالت بیان فرمائی کہ اتنی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی کم بخت فرعونی موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر ہی کہتے رہے اور انھوں نے معجزات اورجادو کا فرق آخر تک تسلیم نہ کیا، بلکہ انھوں نے اپنی سرکشی اور تمرد سے بالآخر قطعی طور پر اعلان کر دیا کہ تم (موسیٰ علیہ السلام ) جو بھی معجزہ دکھاؤ ہم اسے تمھارا جادو ہی سمجھیں گے اور تم پر کبھی ایمان نہیں لائیں گے، حالانکہ انھیں ان معجزوں کے حق ہونے کا یقین تھا۔ دیکھیے سورۂ نمل (۱۳، ۱۴)۔