قَالَ فِرْعَوْنُ آمَنتُم بِهِ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ ۖ إِنَّ هَٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوهُ فِي الْمَدِينَةِ لِتُخْرِجُوا مِنْهَا أَهْلَهَا ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ
فرعون کہنے لگا کہ تم موسیٰ پر ایمان لائے ہو بغیر اس کے کہ میں تم کو اجازت دوں؟ بیشک یہ سازش تھی جس پر تمہارا عمل درآمد ہوا ہے اس شہر میں تاکہ تم سب اس شہر سے یہاں کے رہنے والوں کو باہر نکال دو۔ سو اب تم کو حقیقت معلوم ہوئی جاتی ہے (١)
1۔ قَالَ فِرْعَوْنُ اٰمَنْتُمْ بِهٖ....: یعنی میری اجازت سے پہلے تمھیں کوئی حق نہ تھا کہ تم موسیٰ کی برتری اور کامرانی کا اعلان کرتے۔ ہر متکبر و سرکش یہی چاہتا ہے کہ لوگ اس کی ہاں میں ہاں ملائیں اور جو کچھ وہ کہے اسے مان کر اسی کی تشہیر و اشاعت کریں، اسی طرح دنیا میں ہر متکبر اور سرکش حکمران کا یہ قاعدہ ہے کہ جب وہ دلیل کے میدان میں ہار جاتا ہے تو جیل، پھانسی، سولی اور قتل کی دھمکی دینے پر اتر آتا ہے اور اس کے لیے ایسے قوانین وضع کرتا ہے جن کی رو سے کسی پر اس کا جرم ثابت کیے بغیر اسے سزا دی جا سکے۔ چنانچہ یہی کام فرعون نے کیا، جب وہ دلیل کے میدان میں شکست کھا گیا تو سزا دینے کی دھمکی پر اتر آیا اور فی الفور عوام کے سامنے دو الزام لگا دیے، پہلا کہ یہ جادوگروں اورموسیٰ کی باہمی سازش ہے اور دوسرا یہ کہ یہ لوگ اس سازش کے ذریعے سے مصریوں کو ملک بدر کرکے حکومت پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔ اس لیے پہلے ’’ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ‘‘ (سو تم جلد جان لو گے) کہہ کر دھمکی دی، پھر اس دھمکی کی وضاحت بھی سنا دی۔ 2۔ ثُمَّ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِيْنَ: یعنی ایک جانب سے ہاتھ اور دوسری جانب سے پاؤں کٹوا کر تمھیں سولی دے دوں گا۔ عام طور پر لوگ سولی اور پھانسی کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں، حالانکہ پھانسی میں تو گلے میں رسا ڈال کر گلا گھونٹ کر مارا جاتا ہے، جبکہ سولی میں ایک اونچا کھمبا کھڑا کرکے اس کے اوپر ایک آڑی لکڑی باندھ دی جاتی ہے، پھر ملزم کو اوپر چڑھا کر اس کے بازو اس آڑی لکڑی کے ساتھ باندھ دیے جاتے ہیں، جبکہ جسم اونچی لکڑی کے ساتھ بندھا ہوتا ہے، وہ وہیں دھوپ، سردی، پرندوں کی نوچ کھسوٹ اور دشمنوں کے تیروں یا نیزوں کے زخم کھاتا ہوا دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ اسی لیے سورۂ طٰہٰ (۷) میں ہے : ’’میں تمھیں ہر صورت کھجور کے تنوں پر بری طرح سولی دوں گا۔‘‘ یہ پھانسی سے کہیں زیادہ خوف ناک سزا ہے۔