ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِم مُّوسَىٰ بِآيَاتِنَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَظَلَمُوا بِهَا ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ
پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے دلائل دے کر فرعون اور اس کے امرا کے پاس بھیجا (١) مگر ان لوگوں نے ان کا بالکل حق ادا نہ کیا۔ سو دیکھئے ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا (٢)۔
فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ: وہ سب کے سب غرق کر دیے گئے اور ان کی ساری شان و شوکت خاک میں ملا دی گئی۔ یہ چھٹا قصہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں بیان فرمایا ہے اور اسے جس تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے دوسرے کسی قصے کو اس طرح بیان نہیں فرمایا۔ وجہ یہ ہے کہ جس طرح موسیٰ علیہ السلام کے معجزات ان تمام انبیاء سے بڑھ کر تھے اسی طرح ان کی امت بھی جہالت اور سرکشی میں سب سے بڑھی ہوئی تھی۔ البتہ یہاں ان کی زندگی کے ابتدائی حالات کے بجائے دوسرے انبیاء کی طرح دعوت کے آغاز سے بات شروع فرمائی۔ بعض علماء نے فرمایا، اس آیت میں موسیٰ علیہ السلام کو فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجنے کا ذکر فرمایا ہے، فرعون اور اس کی قوم کا ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ سارا اختیار فرعون کے ہاتھ میں تھا، اگر وہ ایمان لے آتا تو اس کی قوم بھی ایمان لے آتی اور اس جبر و قہر میں اس کے سردار اس کے معاون تھے۔ اس ظالم نے بنی اسرائیل کے علاوہ اپنی قوم کو بھی اتنا بے وقعت بنا دیا تھا کہ ان کے پاس فرعون کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں رہا تھا۔ دیکھیے سورۂ زخرف (۵۸)گویا اس کی اپنی قوم بھی اس کے ہاتھوں مظلوم تھی مگر بنی اسرائیل پر ظلم تو انھیں غلام بنا کر رکھنے، ملک سے نکلنے کی ممانعت اور ان کی اولاد کے قتل کی حد تک پہنچ چکا تھا۔