سورة الفاتحة - آیت 1

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے (سورۃ الفاتحہ۔ سورۃ نمبر ١۔ تعداد آیات ٧)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

صحیح احادیث میں اس کا نام ’’فَاتِحَةُ الْكِتَابِ، اَلصَّلَاةُ، سُوْرَةُ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، سُوْرَةُ الْحَمْدِ، اَلسَّبْعُ الْمَثَانِيْ، اَلْقُرْآنُ الْعَظِيْمُ، اُمُّ الْقُرْآنِ‘‘ اور ’’اُمُّ الْكِتَابِ‘‘آیا ہے، جیسا کہ فاتحہ کے فضائل کی احادیث میں آ رہا ہے۔ اسماء کی کثرت سورت کے معانی و مطالب کی کثرت کی دلیل ہے۔ سورۂ فاتحہ کے فضائل : 1۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ’’ایک دفعہ جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انھوں نے اپنے اوپر زور سے دروازہ کھلنے کی آواز سنی تو سر اٹھایا اور فرمایا : ’’یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے جو آج کھولا گیا ہے، آج سے پہلے یہ کبھی نہیں کھولا گیا۔‘‘ تو اس سے ایک فرشتہ اترا، پھر فرمایا : ’’یہ فرشتہ زمین پر اترا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں اترا۔‘‘ اس فرشتے نے سلام کہا اور کہا : ’’آپ کو دو نوروں کی خوش خبری ہو، جو آپ کو دیے گئے ہیں ، آپ سے پہلے وہ کسی نبی کو عطا نہیں ہوئے، فاتحۃ الکتاب اور سورۂ بقرہ کی آخری آیات۔ آپ ان دونوں میں سے جو حرف بھی پڑھیں گے وہ چیز آپ کو ضرور عطا کر دی جائے گی۔‘‘ [ مسلم، صلاۃ المسافرین، باب فضل الفاتحۃ.... ۸۰۶ ] 2۔ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے، میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ نے مجھے بلایا، میں نہ آیا، یہاں تک کہ میں نے نماز پڑھی، پھر آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تمھارے آنے میں کیا رکاوٹ بنی؟‘‘ میں نے عرض کیا : ’’میں نماز پڑھ رہا تھا۔‘‘ فرمایا : ’’کیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اور رسول کی دعوت قبول کرو۔‘‘ پھر فرمایا : ’’کیا میں تمھیں مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن مجید کی سب سے عظیم سورت نہ سکھاؤں ؟‘‘ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے نکلنے لگے تو میں نے آپ کو یاد دلایا تو آپ نے فرمایا : ’’الحمد للہ رب العالمین ہی ’’سبع مثانی‘‘ ہے، (یعنی وہ سات آیتیں ہیں جو بار بار پڑھی جاتی ہیں ) اور یہی القرآن العظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔‘‘ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : ﴿ولقد آتیناک سبعا.... ﴾ : ۴۷۰۳ ] 3۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اپنے ایک سفر میں تھے، راستے میں اترے تو ایک لڑکی آئی اور کہنے لگی : ’’قبیلے کے سردار کو سانپ نے کاٹ لیا ہے اور ہمارے لوگ غائب ہیں تو کیا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟‘‘ چنانچہ اس کے ساتھ ایک آدمی گیا جس کے متعلق ہمیں دم کرنے کا گمان نہیں تھا، اس نے اسے دم کیا تو وہ تندرست ہو گیا۔ سردار نے اسے تیس بکریاں دینے کو کہا اور ہمیں دودھ پلایا۔ جب وہ واپس آیا تو ہم نے اس سے پوچھا : ’’کیا تم اچھی طرح دم کر لیا کرتے تھے؟‘‘ اس نے کہا : ’’نہیں ، میں نے صرف ام الکتاب کے ساتھ دم کیا ہے۔‘‘ ہم نے کہا : ’’جب تک ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ پہنچیں کچھ نہ کرو۔‘‘ جب ہم مدینہ میں آئے تو ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اسے کیسے معلوم ہوا کہ یہ دم ہے؟ (بکریاں ) تقسیم کر لو اور میرا حصہ بھی رکھو۔‘‘ [ بخاری، فضائل القرآن، باب فضل فاتحۃ الکتاب : ۵۰۰۷ ] بخاری کی ایک روایت (۵۷۳۶) میں ہے کہ ان لوگوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی مہمان نوازی سے انکار کر دیا تھا، جب انھوں نے دم کی درخواست کی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ کہہ کر کہ تم نے ہماری ضیافت نہیں کی تیس بکریوں کی شرط طے کی تھی۔ مسلم (۲۲۰۱) میں ہے کہ یہ دم کرنے والے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ 4۔ خارجہ بن صلت کے چچا (علاقہ بن صحار تمیمی رضی اللہ عنہ ) بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر اسلام لے آئے، پھر واپس گئے تو ان کا گزر کچھ لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے پاس ایک پاگل آدمی لوہے کی زنجیروں میں بندھا ہوا تھا۔ اس کے گھر والے کہنے لگے : ’’تمھارا یہ ساتھی (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) خیر لے کر آیا ہے تو تمھارے پاس کوئی چیز ہے جس سے تم اس کا علاج کرو؟‘‘ تو میں نے اسے فاتحۃ الکتاب کے ساتھ دم کیا تو وہ تندرست ہو گیا، انھوں نے مجھے ایک سو بکریاں دیں ، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو (سارا واقعہ) بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم نے اس کے علاوہ بھی کچھ پڑھا؟‘‘ میں نے کہا : ’’نہیں !‘‘ آپ نے فرمایا : ’’بکریاں لے لو! مجھے اپنی عمر کی قسم! جس نے باطل دم کے ساتھ کھایا (وہ جانے) تم نے تو حق دم کے ساتھ کھایا ہے۔‘‘ [ أبوداؤد، الطب، باب کیف الرقٰی : ۳۸۹۶ ] ۔ 5۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں : ’’جس نے کوئی نماز پڑھی جس میں ام القرآن نہ پڑھی، وہ ناقص ہے۔‘‘ تین دفعہ فرمایا تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا : ’’ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں ۔‘‘ تو فرمایا : ’’اسے اپنے دل میں پڑھو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا : ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا، میں نے ’’صلاۃ‘‘ (نماز) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو نصف حصوں میں تقسیم کر لیا ہے اور میرے بندے کے لیے ہے جو اس نے سوال کیا۔ تو جب بندہ ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’میرے بندے نے میری حمد کی‘‘ اور جب وہ ﴿ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ﴾ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’میرے بندے نے میری ثنا کی‘‘ اور جب وہ ﴿ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ﴾ کہتا ہے تو وہ فرماتا ہے : ’’میرے بندے نے میری تمجید کی (بزرگی بیان کی)‘‘ اور کبھی فرماتا ہے : ’’میرے بندے نے (اپنا آپ) میرے سپرد کر دیا۔‘‘ پھر جب وہ ﴿ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ﴾ کہتا ہے تو وہ فرماتا ہے : ’’یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لیے ہے جو اس نے سوال کیا۔‘‘ پھر جب وہ ﴿ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ () صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ ﴾ کہتا ہے تو وہ فرماتا ہے : ’’یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے ہے جو اس نے سوال کیا۔‘‘ [ مسلم، الصلاۃ، باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی .... : ۳۹۵ ] چند فوائد : 1۔جس طرح اللہ تعالیٰ کے رسولوں کے مراتب میں فرق ہے، ان میں سے بعض بعض سے افضل ہیں ، ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوری اولاد آدم کے سردار ہیں ، اسی طرح سورۂ فاتحہ تورات، انجیل اور قرآن کی ہر سورت سے بڑی سورت ہے، اگرچہ بہت سی سورتیں آیات کے اعتبار سے اس سے لمبی ہیں ، مگر عظمت میں یہ سب سے بڑھ کر ہے، جیسا کہ آیات میں آیت الکرسی سب سے عظیم آیت ہے، گو اس سے لمبی آیات بہت سی ہیں ۔ 2۔اس سورت کا نام ’’فاتحہ‘‘ اس لیے ہے کہ اس سے کتاب اللہ کا آغاز ہوتا ہے۔نماز میں قراء ت کا آغاز بھی اسی سے ہوتا ہے۔ قاموس میں ہے :’’ فَاتِحَةُ كُلِّ شَيْ ءٍ اَوَّلُهُ ‘‘’’ہر چیز کا فاتحہ اس کے اوّل کو کہتے ہیں ۔‘‘ 3۔ اس سورت کا نام ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ‘‘ یا’’سُوْرَةُ الْحَمْدِ‘‘ اس لیے ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی جامع حمد آئی ہے۔ 4۔ اس کا نام ’’اَلسَّبْعُ الْمَثَانِيْ‘‘اس لیے ہے کہ یہ سات آیات ہیں جو ہر نماز (فرض ہو یا نفل) کی ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہیں ، نماز کے علاوہ بھی کثرت سے پڑھی جاتی ہیں ۔ دیکھیے سورۂ حجر (۸۷)۔ 5۔ اس کے نام ’’ام القرآن، ام الکتاب، القرآن العظیم‘‘ اس لیے ہیں کہ اس میں مختصر طور پر قرآن مجید کے تمام بنیادی مضامین آگئے ہیں ، باقی قرآن ان کی تفصیل ہے، چنانچہ ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کمال، اس کی حمد، ثنا اور تمجید آ گئی ہیں ، جیسا کہ اوپر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں گزرا اور آگے آیات کی تفسیر میں بیان ہو گا۔’’ يَوْمِ الدِّيْنِ ‘‘میں آخرت، ثواب و عذاب اور وعدے اور وعید کا ذکر ہے۔ ’’ اِيَّاكَ نَعْبُدُ ‘‘میں بندوں کو ایک اللہ سے مانگنے، اسی کے سامنے عاجزی کرنے، اپنی تمام عبادات زبانی ہوں یا بدنی یا مالی اسی کے لیے خاص کرنے اور اسے ہر شریک سے پاک قرار دینے کی تعلیم ہے۔ اسے ’’توحید الوہیت‘‘ کہتے ہیں ، تمام پیغمبر اسی کی دعوت لے کر آئے۔ ’’ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ‘‘ میں اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنے، اسی پر توکل کرنے اور عبادت اور دوسرے تمام معاملات میں اسی سے مدد مانگنے کی تعلیم ہے کہ اگر اس کی مدد نہ ہو تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اسے ’’استعانت‘‘ کہتے ہیں ۔ ’’ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ ‘‘ میں شریعت کے تمام احکام، پورا اسلام اور پورا قرآن شامل ہے۔ ’’ اِهْدِنَا ‘‘ میں زندگی کے ایک ایک لمحہ میں راہِ راست پر چلنے اور آخری دم تک بلکہ جنت میں پہنچنے تک اس پر قائم رہنے کی دعا کی تعلیم ہے۔ ’’اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ‘‘میں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی تاریخ اور ان کے واقعات کی طرف اشارہ ہے اور ان جیسے اعمال صالحہ اختیار کرنے کی ترغیب ہے، تاکہ ان کے ساتھ جنت میں جا سکیں ۔ ’’ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ ‘‘میں یہود اور ان تمام اقوام کی تاریخ کا ذکر ہے جو حق جاننے کے باوجود اس کی مخالفت پر اڑ گئے اور ’’ الضَّآلِّيْنَ ‘‘ میں نصاریٰ اور ان تمام لوگوں کے واقعات کی طرف اشارہ ہے جو راہِ راست سے بھٹک گئے اور ان دونوں قسم کے لوگوں کے اعمال بد سے اجتناب کی تلقین ہے، تاکہ ان کے ساتھ جہنم میں جانے سے بچے رہیں ۔ (القاسمی) ان سات آیات میں قرآن مجید کے مزید مضامین کا ذکر ہر آیت کی الگ تفسیر میں بھی آئے گا۔ (ان شاء اللہ العزیز) 6۔ اس سورت کا نام ’’صلاۃ‘‘ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، میں نے صلاۃ کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو نصف حصوں میں تقسیم کر لیا ہے، اس کی وضاحت سورۃ الفاتحہ کے ساتھ فرمائی۔ معلوم ہوا جو ’’صلاۃ‘‘(نماز) اس ’’صلاۃ‘‘ (فاتحہ) کے بغیر ہو وہ ’’صلاۃ‘‘(نماز) ہی نہیں ، جیسا کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرمایا : (( لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَّمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ )) ’’اس شخص کی کوئی نماز نہیں جو سورۂ فاتحہ نہ پڑھے۔‘‘ [ بخاری، الأذان، باب وجوب القراء ۃ للإمام.... : ۷۵۶۔ مسلم : ۳۹۴ ] 7۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ پورے قرآن کے اسرار سورۂ فاتحہ میں ، فاتحہ کے اسرار ’’ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ‘‘ میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ کے اسرار اس کی باء میں اور باء کے اسرار اس کے نقطے میں آ گئے ہیں ۔ مگر سورۂ فاتحہ میں پورے قرآن کے مضامین آ جانے کا یہ مطلب درست نہیں ، دراصل یہ ان لوگوں کا طریقہ ہے جو نہ قرآن سمجھنا چاہتے ہیں نہ اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں ، بلکہ اپنے ایجاد کر دہ طریقوں کو قرآن کا نام دے کر مسلمانوں کو گمراہ کر رہے ہیں ۔ (المنار) 8۔ سورۂ فاتحہ کا دوسری سورتوں سے تعلق : (1)کائنات کی تمام چیزوں کی تخلیق، پرورش اور حفاظت ’’ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ‘‘ اور ’’الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ‘‘ کے تحت ہیں ۔ (2) توحید کے متعلق تمام قرآنی آیات ’’ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ‘‘ کے تحت ہیں ۔ (3) داؤد علیہ السلام کے واقعہ میں اور دوسرے تمام مقامات میں عدل و انصاف کا ذکر ’’ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ‘‘ کے تحت ہے۔ (4) ابراہیم علیہ السلام کی قربانی ’’اِيَّاكَ نَعْبُدُ ‘‘ کے تحت اور ان کی اور تمام انبیاء کی دعائیں ’’ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ ‘‘ کے تحت ہیں ۔ (5) ایوب علیہ السلام کی شفا، یونس علیہ السلام کی نجات، ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں محفوظ رہنا، زکریا علیہ السلام کو بڑھاپے میں اولاد ملنا وغیرہ سب ’’ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ‘‘ کے تحت ہیں ۔ (6) ایمان دار اور متقی لوگوں کے احوال و واقعات اور ان کا نیک انجام آخری آیت کے تحت ہیں ۔ اسی طرح بدکار اور سرکش لوگوں کے احوال و واقعات اور ان کا انجام بد بھی اسی آیت کے تحت ہیں ۔ اسی کے مطابق دوسری تمام آیات و واقعات سمجھ لیں ۔ (7) شیطان کا تکبر کے باعث دھتکارا ہوا ہونا ’’ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ ‘‘ کی مثال ہے۔ (بدیع التفاسیر) ۔ 9۔ یہ سورت اگرچہ اللہ کا کلام ہے مگر یہ بندوں کو سکھانے کے لیے نازل ہوئی ہے کہ وہ یوں کہیں ۔ دلیل اس کی گزشتہ حدیث ہے کہ بندہ یوں کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے۔ اس میں بندے کو اللہ تعالیٰ سے مانگنے کا طریقہ سکھایا گیا ہے کہ پہلے اس کی حمد و ثنا اور تمجید کی جائے، پھر اللہ تعالیٰ سے اس کا بندہ ہونے کے تعلق کا ذکر کیا جائے اور اپنی بندگی کا وسیلہ پیش کیا جائے، اس کے بعد اللہ سے مدد مانگتے ہوئے اصل مقصد کا سوال کیا جائے جو صراط مستقیم کی ہدایت کا سوال ہے، جس سے اہم کوئی سوال نہیں ۔ اس لیے بعض اہل علم نے اس کا نام ’’تعلیم المسئلہ‘‘ بھی رکھا ہے، یعنی مانگنے کا طریقہ سکھانے والی سورت۔ 10۔ بعض لوگ زندہ یا فوت شدہ لوگوں کے نام کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ! فلاں کے وسیلے سے یا واسطے سے یا بحرمت فلاں میری دعا قبول فرما، یہ بدعت ہے اور قرآن و سنت سے کہیں ثابت نہیں اور اگر یہ عقیدہ رکھے کہ ان بزرگوں کا نام لیا جائے تو وہ اللہ تعالیٰ سے منوا لیتے ہیں تو یہ شرک ہے جس میں مشرکین عرب مبتلا تھے۔ دیکھیے سورۂ یونس (۱۸) اور سورۂ زمر (۳)۔ صحیح وسیلہ جو ثابت ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے وسیلے سے دعا کرنا ہے، یا اپنے کسی صالح عمل کے وسیلے سے دعا کرنا، جیسا کہ ’’ اِيَّاكَ نَعْبُدُ‘‘ میں ہے اور جیسا کہ آل عمران (۱۹۳) میں ایمان لانے کے وسیلے سے دعا کی گئی ہے اور غار والے تین اصحاب نے اپنے اپنے خالص عمل کے وسیلے سے دعا کی تھی۔ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب حدیث الغار : ۳۴۶۵، عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما ] یا کسی زندہ آدمی سے دعا کروانا، جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کروایا کرتے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ عباس رضی اللہ عنہ سے بارش کی دعا کروایا کرتے تھے۔ [ بخاری، فضائل أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب ذکر العباس بن عبد المطلب رضی اللّٰہ عنہ : ۳۷۱۰، عن أنس رضی اللّٰہ عنہ ] ان تین صورتوں کے سوا وسیلے کی جتنی صورتیں ہیں وہ کچھ بدعت ہیں اور کچھ شرک کے زمرے میں آتی ہیں ، اس لیے ان سے اجتناب لازم ہے۔ 11۔ یہ سورت بہترین دم ہے، سانپ کے زہر جیسی خطرناک بیماری اور دیوانگی جیسی مشکل سے درست ہونے والی بیماری کا دور ہونا اس کی بے انتہا شفائی تاثیر کی دلیل ہے۔ میری ہمشیرہ ایک ٹانگ سے معذور تھی اور بیساکھی کے سہارے سے چلتی تھی، اس کی تندرست ٹانگ بھی بے کار ہو گئی، سارے گھر والے سخت مصیبت میں پھنس گئے، میرے والد صاحب کو ایک عالم نے سورۂ فاتحہ کا دم کرنے کی تاکید کی۔ تیرھویں دن ہمشیرہ دیوار کے سہارے سے ٹانگ پر کھڑی ہو گئی اور پھر اس کی ٹانگ بالکل تندرست ہو گئی۔ تقریباً چالیس برس ہو گئے آج تک وہ بیساکھی کے ساتھ اس ٹانگ پر چلتی پھرتی ہے۔ مجھے زندگی میں دو تین دفعہ نہایت سخت بیماری پیش آئی، علاج کے ساتھ ساتھ گھر والے سورۂ فاتحہ کا دم کرتے رہے، اگرچہ کچھ مدت لگی مگر اللہ تعالیٰ نے شفا دے دی۔ (الحمد للّٰہ) 12۔ ان احادیث سے قرآن کے ساتھ دم پر اجرت کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ : (( اِنَّ اَحَقَّ مَا اَخَذْتُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا كِتَابُ اللّٰهِ )) (سب سے زیادہ حق چیز جس پر تم اجرت لو اللہ کی کتاب ہے) [ بخاری، الطب، باب الشروط فی الرقیۃ بفاتحۃ الکتاب : ۵۷۳۷ ] اس کی دلیل ہیں ۔کتاب اللہ کی کتابت، طباعت، جلد بندی، خرید و فروخت اور تعلیم وغیرہ پر اجرت نہایت پاکیزہ اجرت ہے۔ اہل کتاب کو جو اللہ کی آیات کے بدلے تھوڑی قیمت لینے پر ملامت کی گئی اس کی وجہ ان کا حق کو چھپانا اور دنیاوی مفاد کے لیے غلط فتوے دینا تھا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ البقرہ (۴۱، ۷۹، ۱۷۴) اور آل عمران (۱۸۷)۔ (آیت 1) بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ: شیخ المفسرین طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ادب سکھایا کہ اپنے تمام کاموں اور اہم مواقع سے پہلے اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور اس کی صفات عالیہ کا ذکر کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اپنی تمام مخلوق کو طریقہ سکھایا کہ اپنی گفتگو کا آغاز اور اپنے خطوط، کتابوں اور تمام ضروری کاموں کی ابتدا اسی کے ساتھ کریں ، یہاں تک کہ ’’ بِسْمِ اللّٰهِ ‘‘ (اللہ کے نام کے ساتھ) کہتے ہوئے یہ بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ اللہ کے نام کے ساتھ کیا کرنا ہے، حذف شدہ لفظ خود ہی واضح ہوتا ہے کہ میں اللہ کے نام کے ساتھ پڑھتا ہوں یا کھاتا ہوں یا فلاں کام کرتا ہوں ۔ یہاں ’’ اسم‘‘ (نام) ’’تَسْمِيَةٌ‘‘ (نام لینے) کے معنی میں ہے، جیسا کہ’’كَلَامٌ‘‘ ’’تَكْلِيْمٌ‘‘ (کلام کرنے) کے معنی میں اور ’’عَطَاءٌ‘‘ ’’اِعْطَاءٌ‘‘ (دینے) کے معنی میں ہے۔ معنی یہ ہے کہ میں اللہ کا نام لینے اور اسے یاد کرنے کے ساتھ پڑھتا ہوں (یا کوئی بھی کام کرتا ہوں ) اور اس کے اسمائے حسنیٰ اور صفات علیا کا نام لینے کے ساتھ قراء ت (یا کسی بھی کام) کا آغاز کرتا ہوں ۔‘‘ مختصراً لفظ ’’ اللّٰه ‘‘ اس ہستی کا علم (ذاتی نام) ہے جو سب سے بلند و برتر اور سب کی خالق و مالک ہے۔ اس لفظ کا اصل ’’اِلَاهٌ‘‘ ہے۔ الف لام لگایا تو ’’اَلْاِلَاهٌ‘‘ بن گیا۔ کثرت استعمال کی وجہ سے تخفیف کے لیے ’’ اِلاَهٌ ‘‘ کا ہمزہ حذف کر دیا گیا اور الف لام والے لام کو ’’اِلَاهٌ‘‘ کے لام میں مدغم کر دیا، ’’اِلَاهٌ‘‘ کے لام کے بعد والا الف بھی کثرت استعمال کی وجہ سے لکھنے میں ترک کر دیا گیا، تو لفظ ’’ اللّٰه ‘‘ ہو گیا۔ یہ ’’فِعَالٌ‘‘ بمعنی ’’مفعول‘‘ ہے، یعنی ’’اِلَاهٌ‘‘ بمعنی ’’مَأْلُوْهٌ‘‘ ہے، یعنی وہ ذات جس کی عبادت کی جاتی ہے۔ ’’الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ‘‘ کی تفسیر اگلی آیت میں آ رہی ہے۔’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ‘‘ سورۂ نمل میں بالاتفاق آیت کا جزو ہے۔ صحابہ کے اجماع کے ساتھ اسے فاتحہ اور دوسری سورتوں کے شروع میں لکھا گیا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سورۂ توبہ کے سوا ہر سورت کا جزو ہے۔ ہر سورت کے ساتھ اس کا نازل ہونا صحیح حدیث سے بھی ثابت ہے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک سورت کا دوسری سے الگ ہونا اس وقت تک نہیں پہچانتے تھے جب تک آپ پر ’’ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ‘‘ نازل نہیں ہوتی تھی۔ [ أبوداؤد، الصلاۃ، باب من جھر بھا : ۷۸۸ ]