وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اور یہ کہ دین (١) میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے سو اس راہ پر چلو (٢) دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی۔ اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو۔
153۔ اس آیت کریمہ میں دسویں حرام چیز کا ذکر کیا گیا ہے اور وہ کہ اسلام کے علاوہ دوسرے ادیان ومذاہب اور افکار ونظریات کی اتباع کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ دین اسلام پر چلیں کیونکہ یہی اس کی سیدھی راہ ہے، امام احمد اور حا کم نے عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ہمارے سامنے ایک لکیر کھینچی اور کہا کہ یہ اللہ کی راہ ہے، پھر اس کے دائیں اور بائیں لکیریں کھنچیں اور فرمایا کہ ان راستوں میں سے ہر ایک پر ایک شیطان کھڑا ہے جوکہ اس پر چلنے کی دعوت دے رہا ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں اسلام کے لیے سبیل مفردآیا ہے۔ اور دیگر مذاہب اور فرقوں کے لیے سبیل جمع آیا ہے اس لیے کہ حق ایک ہے اور تقلید مذاہب اور عقائدی فرقے متعدد اور گوناگوں ہیں۔ ابن عطیہ کہتے ہیں کہ "سبیل "کا لفظ یہود یت، نصرانیت، مجوسیت اور دیگر تمام ملتوی، بدعتوں اور گمراہیوں کو شامل ہے جنہیں اہل ہوا وہوس نے پیدا کیا ہے، اسی طرح علم کلام کے وہ تمام فرقے اس لپیٹ میں آجاتے ہیں جو خوامخواہ کی تفصیلات میں داخل ہوتے ہیں، قتادہ کہتے ہیں جان لو کہ راستہ صرف ایک ہے اور اہل ہدایت کی جماعت اور اس کا انجام جنت ہے اور ابلیس نے مختلف راستے پیدا کردیئے ہیں جو گمراہوں کی جماعتیں ہیں اور ان کا انجام جہنم ہے۔ یہ آیت دلیل ہے اس بات کی کہ امت اسلامیہ کا اتحاد صرف ایک ہی صورت میں وجود میں آسکتا ہے کہ وہ سارے فرقوں اور مذاہب کو چھوڑ کر صرف صحیح اسلام کے متبع بن جائیں، جو صرف قرآن وسنت کا نام ہے، اس کے بغیر مسلمانوں کا متحد ہونا محال ہے جیسا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ امت کسی بھی زمانے میں اسی راہ پر چل کر اصلاح پذیر ہو سکتی ہے۔ جسے اپناکر صحابہ کرام اصلاح پذیر ہوئے۔ مندرجہ بالا تینوں آتیوں میں جن دس محرمات کا ذکر آیا ہے، درحقیقت یہ اسلام کے دس وصایا ہیں، جن پر اسلام کا دارومدار ہے اور جن پر عمل کر کے انسان دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرسکتا ہے اسی لیے عبد اللہ بن مسعود (رض) کہا کرتے تھے کہ جو شخص رسول اللہ (ﷺ) کی اس وصیت کو دیکھنا چاہتا ہے جس پر ان کی مہر لگی ہوئی ہے تو یہ تینوں آیتیں پڑھے : سے تک۔