وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۖ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۖ وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہے یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد تک پہنچ جائے (١) اور ناپ تول پوری پوری کرو، انصاف کے ساتھ (٢) ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے (٣) اور جب تم بات کرو تو انصاف کرو گو وہ شخص قرابت دار ہی ہو اور اللہ تعالیٰ سے جو عہد کیا اس کو پورا کرو ان کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔
( 152) اس آیت کریمہ میں چار مزید محرمات کا ذکر آیا ہے : 1۔ یتیم کے مال میں ناجائز تصرف کرنا، یتیم کے نگراں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اس کے مال کی حفا ظت کرے اور تجارت کے ذریعہ اس میں اضافہ کی سعی کرے، اور جب بالغ ہوجائے تو اس کا مال اس کے حوالے کر دے۔ 2۔ ناپ تول میں کمی کرنا : اللہ تعالیٰ نے سورۃ مطففین میں فرمایا ہے : کم تولنے والوں کو ویل ہے ہلاکت و بر بادی ہے، اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ میں فرمایا کہ ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بنا تے، یعنی اگر کوئی شخص حق کی ادائیگی اور اپنا حق لینے میں عدل وانصاف کی پوری کو شش کرے اور اس کے بعد بھی اس سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کا مؤاخذہ نہیں کرے گا۔ 3۔ قول وحکم میں زیادتی یا نقصان : اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء کی آیت (135) میں فرمایا ہے : کہ اے ایمان والو ! عدل وانصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور خو شنودی مولی کے لے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ اگرچہ وہ خود تمہارے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ یا رشتہ دار عزیزوں کے۔ اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہر حال میں اور ہر قول اور ہر فعل میں عدل وانصاف کا حکم دیتا ہے۔ اور چاہے اس کا تعلق کسی قریبی رشتہ دار سے ہو یا کسی دور کے آدمی سے۔