قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
آپ کہہ دیجئے جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے، مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو، کیونکہ وہ بالکل ناپاک ہے یا جو شرک کا ذریعہ ہو کر غیر اللہ کے لئے نامزد کردیا گیا ہو (١) پھر جو شخص مجبور ہوجائے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے والا ہو تو واقع ہی آپ کا رب غفور و رحیم ہے۔
(145) جانوروں کی تحلیل وتحریم کے بارے میں مشرکین عرب کی خودساختہ شریعت اور ان کی افتر پردازی کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا کہ اب وہ ان اشیاء کو بیان کردیں جنہیں اللہ نے بندوں کے لیے حرام بنایا ہے، اس کے بعد اللہ نے چار چیزوں کا ذکر فرمایا مردہ جانور" جو موت کی وجہ سے فاسد اور ناپاک ہوجاتا ہے، بہنے والا خون، سورکا گوشت جو (نجاستوں کے کھانے کی وجہ سے) ناپاک ہوجاتا ہے، اور وہ جانور جسے بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، اور غیر اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو، قرآن کریم نے ایسے جانورکو "فسق" کے نام سے اس لیے تعبیر کیا ہے کہ فسق کا معنی قرآن کریم کی اصطلاح میں اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، اور غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنے سے آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص اضطراری حالت میں اپنی جان بچانے کے لیے ان محرمات میں سے صرف بقدر ضرورت استعمال کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کا مؤاخذہ نہیں کرے گا۔ اس آیت سے معلوم ہو تا ہے کہ مکی زندگی کے اس دورتک محرمات صرف یہی چار چیزیں تھیں، اس کے بعد مدینہ میں سورۃ مائدہ نازل ہوئی، جس ،، میں منخنقہ، موقوذہ، متردیہ اور نطیحہ، کو حرام بتایا گیا، جن کی تفصیل مذکورہ بالا سورت کی تفسیر میں گذ چکی ہے، اور نبی کریم ﷺ کی صحیح احادیث کے ذریعہ ناخن والے جانوروں، پنجے والی چڑیوں، پالتو گدھوں اور کتوں وغیرہ کی حرمت ثابت ہوئی، اس لیے اس آیت کریمہ کے نزول کے بعد جو مکی ہے قرآن کریم یارسول اللہ ﷺ کی سنت کے ذریعہ جن جانوروں کی حرمت ثابت ہوئی، وہ بھی اسلام میں حرام ہیں۔ امام شوکانی کہتے ہیں کہ ابن عباس، ابن عمر اور عائشہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا قول ہے کہ حرام صرف وہی چیزیں ہیں جن کا ذکر اس آیت میں آیا ہے امام مالک کا بھی یہی قول ہے، لیکن یہ قول لائق اعتبار نہیں ہے، کیونکہ اس سے بغیر کسی دلیل کے قرآن کریم کی ان آیتوں کا اہمال واسقاط لازم آتا ہے جو اس کے بعد نازل ہوئیں۔ اور ان احادیث کا بھی جو مدنی زندگی میں وارد ہوئیں ، اور جابر بن عبداللہ (رض) کا یہ قول کہ علم کے سمندر ابن عباس (رض) نے اسی آیت کے مد نظر پالتو گدھوں کو حلال قرار دیا ہے، جسے امام بخاری نے روایت کی ہے، تو یہ بات لائق اعتناء نہیں ہے اس لیے کہ جب رسول اللہ (ﷺ) کی حدیث سے حرمت ثابت ہوگئی تو صحابی کے قول پر عمل کرنا بے سمجھی اور بے انصافی ہے۔