سورة البقرة - آیت 1

لم

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

الم (١)

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

قرآن کریم کی انتیس سورتوں کی ابتدا حروف مقطعات سے ہوئی ہے۔ اس کے معنی و مفہوم کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف رہا ہے۔ پہلا مشہور مذہب تو یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک راز ہے۔ اس کا معنی کسی کو معلوم نہیں۔ اسی لیے ان حضرات نے اس کی تفسیر بیان نہیں کی ہے۔ دوسرا مذہب ان لوگوں کا ہے جنہوں نے اس کی تفسیر بیان کرنے کی کوشش کی ہے، ان میں سے اکثر لوگوں کی رائے یہ ہے کہ یہ حروف سورتوں کے نام ہیں۔ بعض دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ ان حروف کے ذریعہ بہت سی قرآنی سورتوں کی ابتدا اہل عرب جن کے لیے قرآن کریم ایک چیلنج بنا کر بھیجا گیا کے دل و دماغ میں یہ بات بٹھانے کے لیے کی گئی کہ یہ قرآن انہی حروف سے مرکب ہے، جن سے تمہاری تقریر و تحریر کے کلمات بنتے ہیں، لیکن تم اس جیسی ایک آیت بھی لانے سے عاجز ہو، کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے، کسی انسان کا نہیں؟ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (رح) نے اوائل سورۃ میں ان حروف کے لائے جانے کی حکمت یہی بیان کی ہے کہ ان کا مقصد قرآن کریم کا اعجاز ثابت کرنا ہے کہ اللہ کی کتاب انہی حروف سے مرکب ہے جن سے تمہاری گفتگو کے کلمات بنتے ہیں، لیکن پھر بھی تم اس جیسا کلام لانے سے عاجز ہو۔ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ یہ کلام الٰہی ہے !! حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ جن سورتوں کی ابتدا ان حروف سے ہوئی ہے ان میں قرآن کی عظمت اور اس کے اعجازی کلام ہونے پر زور دیا گیا ہے۔ اور اسی طرح وہ تمام سورتیں جن کی ابتدا حروف مقطعات سے ہوتی ہے، آپ دیکھیں گے کہ ان سب میں قرآن کی عظمت اور اس کے اللہ کا کلام ہونے پر زور دیا گیا ہے۔