سورة الانعام - آیت 80

وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ ۚ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّهِ وَقَدْ هَدَانِ ۚ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَن يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا ۗ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۗ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور ان سے ان کی قوم نے حجت کرنا شروع کردی (١) آپ نے فرمایا کہ تم اللہ کے معاملے میں مجھ سے حجت کرتے ہو حالانکہ کہ اس نے مجھے طریقہ بتلایا ہے اور میں ان چیزوں سے جن کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بناتے ہو نہیں ڈرتا ہاں اگر میرا پروردگار ہی ہر چیز کو اپنے علم میں گھیرے ہوئے ہے، کیا تم پھر بھی خیال نہیں کرتے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(75) ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے اپنے مشرکانہ عقائد کی تائید اور ان کی دعوت توحید کی تردید میں کبھی انہیں دھمکی دی اور کبھی لچر دلیلوں کے ذریعہ اپنی بات منوانی چاہی، تو ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ کیا تم مجھ سے اس بارے میں منا ظرہ کرنا چاہتے ہو کہ اللہ کا کوئی شر یک و مثیل نہیں ؟ توحید باری تعالیٰ پر تو حجت قائم کرچکا، اور اس بات کی قطعی طور پر نفی ہوچکی کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا بھی لائق عبادت ہے، اس لیے کہ کامل صرف اللہ کی ذات ہے، اور اس کے علاہ تمام چیزیں ناقص ہیں، اور کوئی ناقص معبود نہیں ہوسکتا۔ (76) مشر کوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کے یہ کہہ کر خوف دلایا کہ کہیں ان کے معبودوں کا غضب نہ ان پر نازل ہوجائے، اور وہ کسی مصیبت میں نہ مبتلا ہوجائیں، تو ان کے جواب میں ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ کہا کہ میں تمہارے معبودوں سے نہیں ڈرتا، کیونکہ وہ تو بے جان جمادات ہیں، وہ نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ تمہارے قول کے باطل ہونے کی دلیل یہ ہے کہ یہ بالکل بے اثر ہیں، اس لیے میں ان سے نہ ڈرتا ہوں اور نہ ہی ان کی پرواہ کرتا ہوں، اگر ان کے بس میں کچھ ہے تو کر گذریں اور مجھے مہلت نہ دیں، اس کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ ہاں، اگر میرا رب چاہے گا ان کی جانب سے کوئی تکلیف پہنچ سکتی ہے جو محض اللہ کی جانب سے ہوگا، تمہارے معبودوں کا اس میں دخل نہ ہوگا۔