وَمَا عَلَى الَّذِينَ يَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَلَٰكِن ذِكْرَىٰ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
اور جو لوگ پرہیزگار ہیں ان پر ان کی باز پرس کا کوئی اثر نہ پہنچے گا (١) اور لیکن ان کے ذمہ نصیحت کردینا ہے شاید وہ بھی تقویٰ اختیار کریں (٢)۔
(63) اس آیت کی تفسیر دو طرح کی گئی ہے، ایک یہ ہے کہ جب کفار اللہ کی آیتوں کا مذاق اڑارہے ہوں، اس وقت اگر اللہ سے ڈرنے والے مسلمان ان مجلسوں سے بچیں گے، تو کفار کا گناہ ان کو لاحق نہ ہو گا، لیکن یہ بات یاد رہے کہ ایسی مجلسوں سے الگ رہنے کے حکم سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا وجوب ساقط نہیں ہوجاتا، دوسرا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے لوگ اگر کسی مجبوری سے ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں کا مذاق اڑاتے ہیں تو ان کا گناہ ان کو لاحق نہیں ہوگا، لیکن ایسی مجلسوں میں جانے کی اجازت سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا وجوب سا قط نہیں ہوتا، علمائے تفسیر نے کہا ہے کہ ایسی مجلسوں میں شرکت کی اجازت ابتدائے اسلام میں تھی، جب مسلمان اپنا ایمان چھپائے پھر تے تھے، لیکن مدنی زندگی میں جب سورۃ نساء والی آیت نازل ہوئی جس کا ذکر ابھی اوپر آچکا تو یہ اجازت منسوخ ہوگئی۔