قُلْ مَن يُنَجِّيكُم مِّن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَّئِنْ أَنجَانَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ
آپ کہئے کہ وہ کون ہے جو تم کو خشکی اور دریا کی ظلمات سے نجات دیتا ہے۔ تم اس کو پکارتے ہو تو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے کہ اگر تو ہم کو ان سے نجات دے دے تو ہم ضرور شکر کرنے والوں میں سے ہوجائیں گے۔
(59) اب بھی سیاق کلام مشرکین مکہ ہی سے متعلق ہے خشکی کی تاریکیوں سے مراد مختلف قسم کی مصیبتیں، دشمن کا خوف اور راستہ بھٹک جانا ہے، اور سمندر کی تاریکی سے مراد موجوں کا ڈر، آندھی کا خوف اور راہ بھٹک جانا ہے، یہاں اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کی فطرت کی کجی بیان کی ہے کہ جب انہیں کوئی خوف لاحق ہوتا ہے تو اللہ کے سامنے گریہ وزاری کرتے ہیں، اور چھپ چھپ کر دعائیں کرتے ہیں اور اللہ سے وعدہ کرتے ہیں کہ اگر اس نے مصیبت سے نجات دے دی تو ہم اس کے شکر گذار بندے بن جائیں گے اور شک نہیں کریں گے۔