وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۚ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ
اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں (خزانے) ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ تعالیٰ کے اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہے اور جو کچھ دریاؤں میں ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانا زمین کے تاریک حصوں میں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں (١)
(57) اللہ تعالی نے غیبی امورکو ان قیمتی اور اہم اشیاء سے تشبیہ دیا ہے جنہیں صندوقوں میں بند کرکے غایت احتیاط کے طور پر تالا ڈال دیا جاتا ہے، ان غیبی امور کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے، آیت کا مفہوم یہ ہے کہ تم لوگ جس عذاب کے لیے جلدی کررہے ہو وہ میری قدرت سے باہر کی بات ہے، اور نہ مجھے اس کا علم ہے کہ میں تمہیں اس کے آنے کا وقت بتاؤں۔ اسکاتعلق اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے علم سے ہے اس کی مشیت جب چاہے گی عذاب آئے گا۔ اس کے بعد اللہ نے بعض مشاہدات کا ذکر کے مزید تاکید فرمائی کہ تمام غیبی امور کا علم اللہ کو ہے، چناچہ فرمایا کہ بحروبر میں جو کچھ ہے اس کا علم صرف اللہ کو ہے، اور اس حقیقت کے بیان میں مزید مبالغہ کے طور پر کائنات کی ان گنت جزئیات کے بارے میں فرمایا کہ ان سب کا علم صرف اللہ کو ہے، صاحب"فتح البیان"نے لکھا ہے کہ اس آیت سے کاہنوں، نجومیوں اور غیب کی باتیں بتانے والوں کی تردید ہوتی ہے، جو کشف والہام کا جھوٹا دعوی کرتے ہیں مسند احمد میں ابو ہریرہ (رض) کی روایت ہے رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جو کسی کاہن یا نجومی کے پاس گیا، اس نے محمد (ﷺ) پر اتاری گئی کتاب کا انکار کردیا، عبداللہ بن مسعود (رض) کا قول ہے کہ نبی کریم (ﷺ) کو غیبی امور کی چابیوں کے علاوہ سب کچھ دیا گیا تھا، ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ مفاتح الغیب سے مراد تقدیر اور روزی ہے صحیح بخاری میں ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا "مفا تح الغیب " پانچ چیزیں ہیں جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو بھی نہیں ہے : کل کیا ہوگا، رحم میں کیا ہے ؛ کوئی بھی آدمی کل کیا کمائے گا، آدمی کو موت کہاں آئے گی، اور بارش کب ہوگی "ایک روایت میں ہے کہ قیا مت کب آئے گی۔