وَكَذَٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لِّيَقُولُوا أَهَٰؤُلَاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّن بَيْنِنَا ۗ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ
اور اسی طرح ہم نے بعض کو بعض کے ذریعہ سے آزمائش میں ڈال رکھا ہے تاکہ یہ لوگ کہا کریں، کیا یہ وہ لوگ ہیں کہ ہم سب میں سے ان پر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا (١) کیا یہ بات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ شکرگزاروں کو خوب جانتا ہے (٢)
(52) اس آیت کریمہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ابتدائے اسلام میں رسول اللہ (ﷺ) پر اکثر و بیشتر ایمان لانے والے کمزور مرد، عورتیں، غلام اور لونڈیاں تھیں، شرفائے قریش میں سے بہت کم لوگوں نے اسلام قبول کیا، جیسا کہ قوم نوح نے نوح (علیہ السلام) سے کہا تھا : کہ ہم تو دیکھ رہے ہیں کہ تمہاری اتباع صرف حقیر لوگ کرتے ہیں۔ (ہود :27) اور جیسا کہ ہر قل نے ابو سفیان سے پوچھا تھا کہ اس کی اتباع شرفاء لوگ کرتے ہیں یا کمزور لوگ؟ ابو سفیان نے کہا کہ کمزور لوگ۔ تو ہر قل نے کہا کہ رسولوں کی اتباع ایسے ہی لوگ کرتے ہیں، مشرکین مکہ ان کمزور مسلمانوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے، انہیں عذاب دیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ کیا اللہ نے ہمیں چھوڑ کر ان پر احسان کیا ہے ؟ تو اللہ نے اس کے جواب میں یہاں فرمایا کہ کیا اللہ شکر کرنے والوں کو زیادہ نہیں جانتا ؟ بے شک اللہ ان کے اقوال وافعال اور دلوں کی پوشیدہ باتوں کو بھی جانتا ہے، اس لیے انہیں توفیق دیتا ہے راہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے، ظلمتوں اور تا ریکیوں سے نکال کر ایمان واسلام کی روشنی میں پہنچا دیتا ہے، امام مسلم نے ابو ہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ اللہ تمہاری صورتوں اور تمہارے رنگوں کو نہیں دیکھتا، بلکہ وہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔