سورة المآئدہ - آیت 116

وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوہ اللہ کے معبود قرار دے لو! (١) عیسیٰ عرض کریں گے کہ میں تو تجھ کو منزہ سمجھتا ہوں، مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کو کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں، اگر میں نے کہا ہوگا تو تجھ کو اس کا علم ہوگا، تو تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا (٢) تمام غیبوں کے جاننے والا تو ہی ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(141) یہاں بھی خطاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عیسیٰ (علیہ السلام) کو ہے، اور یہ خطاب قیامت کے دن ان نصاری کے سامنے ہوگا جنہوں نے عیسیٰ اور ان کی ماں مریم کو اللہ کے بجائے معبود بنا لیا تھا، اور اس سے مقصود ان کی تو بیخ وملامت ہوگی، اور یہ اس وجہ سے ہوگا کہ دیگر قوموں کا جرم اس حدتک محدود تھا کہ انہوں نے انبیاء پر طعن وتشنیع کیا، لیکن ملحدین نصاری نے تو اللہ کے جلال اور اس کی کبریائی پر کلام کیا اور اسے ایسی صفات کے ساتھ متصف کیا جو کسی طرح اس کے لائق نہ تھی۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا اور ان کی ماں کو اس کی بیوی ٹھہرایا، اسی لئے روز قیامت تمام انبیاء ورسل کے سامنے اللہ تعالی عیسی علیہ السلام پر اپنے ایک ایک انعام کا ذکر کر کے انکی عبودیت کا احساس دلائے گا۔اور تمام حاضرین محشر کے سامنے سوال کرے گا تاکہ وہ خود اپنی زبان سے اپنی عبودیت اور اس بات کا اعلان کریں کہ انہوں نے اپنی امت کو اللہ کی بندگی کا حکم دیا تھا۔ تاکہ ان کی عبادت کرنے والوں کی تکذیب ہو اور ان کے خلاف حجت قائم ہوجائے۔ اور اللہ نے یہ اسلوب بیان اس لیے اختیار کیا ہے تاکہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے زمانے کے نصاری کو تنبیہ کی جائے اور انہیں بتایا جائے کہ ان کا عقیدہ کتنا فاسد اور ان کا مذہب کس قدر بے بنیاد ہے (142) عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے قول یا عدم قول کے علم کی نسبت اللہ کی طرف کردی، اور اللہ خوب جانتا ہے کہ انہوں نے یہ بات نہیں کی تھی اس طرح ثابت ہوگیا کہ یہ عیسیٰ علیہ اسلام کا قول نہی ہے۔ اس کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے گذشتہ قول کی علت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اللہ ! میرے دل میں جو کچھ چھپا ہوا ہے تو اسے جانتا ہے، اس لیے اگر میں نے کوئی بات ایسی کہی ہوگی تو تجھے یقینا اور بدرجہ اولی اس کی خبر ہوگی۔ اور تیرے علم کے خزانے میں کیا کچھ چھپا ہوا ہے اسے میں نہیں جانتا، توہی غیب کی تمام باتوں کو جاننے والا ہے۔ اس کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالی سے مخاطب ہو کر کہیں گے کہ میں نے ان سے وہی بات کہی تھی جس کی تبلیغ کا تو نے مجھے حکم دیا تھا۔ کہ اے لوگو ! تم سب اللہ کی بندگی کرو جو میرا اور تم سب کا رب ہے۔ آیت کے اس حصہ میں عیسیٰ علیہ السلام اور انکی ماں کی الوہیت کی نفی، اور عیسی علیہ السلام کی زبانی اس بات کا اقرارہے کہ انہوں نے لوگوں کو اپنی اور اپنی ماں کی عبادت کا حکم نہیں دیا تھا۔ اور اس بات کا بھی اعتراف واعلان ہے کہ غیب کی باتیں اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔اس میں انبیاء اور غیر انبیاء سبھی برابر ہیں۔انبیاء کو بھی غیب کی وہی باتیں معلوم ہوتی تھیں جو بذریعہ وحی انہیں بتائی جاتی تھیں۔