سورة المآئدہ - آیت 103

مَا جَعَلَ اللَّهُ مِن بَحِيرَةٍ وَلَا سَائِبَةٍ وَلَا وَصِيلَةٍ وَلَا حَامٍ ۙ وَلَٰكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۖ وَأَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اللہ تعالیٰ نے نہ بحیرہ کو مشروع کیا ہے اور نہ سائبہ کو اور نہ وصیلہ کو اور نہ حام کو (١) لیکن جو لوگ کافر ہیں وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ لگاتے ہیں اور اکثر کافر عقل نہیں رکھتے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

128 گذشتہ آیتوں میں اللہ نے حلال اور پاک چیزوں کو حرام بنانے سے منع کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ اللہ نے جو حلال اور پاک روزی دی ہے اس کھاؤ۔ اس کے بعد کھانے پینے کی چیزوں، برمی اور بحری شکارر، ہدی کے جانور اور قلادہ پہنائے ہوئے ان اونٹوں کا ذکر آیا ہے جو اللہ کے نام پر حرم کی طرف لے جاتے ہیں اور حدود حرم میں انہیں اللہ رضا کے لیے ذبح کیا جاتا ہے اسی مناسبت سے اب ان جانوروں کا بیان ہو رہا ہے جنہیں اہل عرب کے بجائے بتوں کے نام پر چھوڑدیتے تھے، اور ان کا کھانا اپنے لیے حرام قرار دیتے تھے۔ اس اونٹنی کو کہتے تھے، جس نے پانچ بار بچے دیئے ہوں اور آخری بار نر جنی ہو، تو اس کا کان چھید کر آزاد کردیتے تھے، نہ اس پر سوال ہوتے تھے نہ ذبح کرتے تھے، اور نہ اسے حامل ہونے دیتے تھے اور اسے کسی پانی کی جگہ اور چراہ گاہ سے روکتے نہیں تھے، اگر کوئی تھکا ماندہ بغیر سواری کا آدمی بھی اسے دیکھتا تو اس پر سوار نہ ہوتا تھا۔ اس اونٹنی کو کہتے تھے، جسے زمانہ جاہلیت میں بطور نذرانہ یا بتوں کے نام پر چھوڑدیا جاتا تھا نہ اس پر سوار ہوتے تھے اور نہ اس پر برداری کا کام لیتے تھے، اس کا ایک دوسرا معنی یہ بھی بتایا گیا کہ جو اونٹنی دس بار بچے جنتی تھے اور ان میں نر نہیں ہوتا تھا، تو اسے چھوڑ دیا جاتا تھا نہ اس پر سوار ہوتے تھے نہ اس کا بال کاٹتے تھے، اور نہ ہی سوائے اس کے بچے اور مہمان کے کوئی اس کا دودھ پیتا تھا، ایک تیسرا مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جب کوئی دور کے سفر سے آتا، یا کسی بیماری سے شفا یاب ہوتا، یا اس کا چوپایہ کسی مشکل یا جنگ سے بچ جاتا، تو کہتا کہ میری اونٹنی آزاد ہے۔ اس بکری کو کہتے تھے جو چھ بار دو دو مادہ بچے جنتی، اور ساتویں بار مادہ اور ایک نر بچہ دیتی، تو لوگ کہتے کہ مادہ نے اپنے بھائی کو ملالیا، اس لیے نر کو اپنے معبودوں کے لیے ذبح نہیں کرتے تھے۔اس اونٹ کو کہتے تھے جس کے مادہ اونٹنی پر جست لگانے کی تعداد مقرر کردی جاتی تھی، اس کے بعد اس کے جسم پر مور کے پر باندھ دیتے اور اسے بتوں کے لیے چھوڑدیتے بعض کے نزدیک اس اونٹ کو کہا جاتا تھا جس کے صلب سے دس بار اونٹنی نے بچہ جنا ہو، پھر اسے چھوڑدیا جاتا تھا۔ ان چار قسموں کے جانوروں کی تشریح میں اور بھی اقوال آئے ہیں، لیکن ان کے درمیان کوئی منافات نہیں، اس لیے کہ اہل جاہلیت کی گمراہیاں گو ناگوں تھیں، جنہیں اللہ نے مشروع نہیں کیا تھا، بلکہ مشرکین نے اپنی طرف سے ایجاد کرلیا تھا۔ صحیحین میں ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا : میں نے عمر بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی انتڑیاں گھسیٹ رہا تھا، وہ پہلا شخص تھا جس نے بحیرہ اور سائبہ " جانور چھوڑاتھا اور دین اسماعیل کو بدل دیا تھا"مسند احمد میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا :"ابو خزاعہ عمر بن عامر پہلا شخص تھا جس نے بحیرہ اورسائبہ جانور چھوڑاتھا، اور میں نے اسے دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی انتڑیاں گھسیٹ رہا تھا "