يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی (١) اور آپ کو اللہ تعالیٰ لوگوں سے بچا لے گا (٢) بیشک اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
94۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو لفظ الرسول کے ساتھ اس لیے مخاطب کیا تاکہ انہیں اس بات کی یاد دہانی کرائی جائے کہ منصبِ رسالت اس امر کا متقاضی ہے کہ انہیں جس پیغام کے پہنچانے کا مکلف کیا گیا ہے، اسے پوری ذمہ داری سے ادا کریں، اس میں کوئی تقصیر نہیں ہونی چاہئے۔ امام شوکانی لکھتے ہیں کہ کے عموم سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر اللہ کی طرف سے واجب تھا کہ ان پر جو کچھ وحی ہو رہی ہے لوگوں تک بے کم و کاست پہنچائیں، اس میں سے کچھ بھی نہ چھپائیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اللہ کے دین کا کوئی حصہ خفیہ طور پر کسی خاص شخص کو نہیں بتایا جو اوروں کو نہ بتایا ہو، اسی لیے صحیحین میں عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ جو کوئی یہ گمان کرے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے وحی کا کوئی حصہ چھپا دیا تھا وہ جھوٹا ہے، صحیح بخاری میں ہی ابوجحیفہ وہب بن عبداللہ السوانی کی روایت ہے کہ میں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس وحی کا کچھ حصہ ہے جو قرآن میں موجود نہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں، اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑا اور ہوا کو پیدا کیا، سوائے اس فہم قرآن کے جو اللہ کسی بندے کو دیتا ہے اور جو کچھ اس صحیفہ میں ہے۔ راوی کہتے ہیں میں نے کہا اس صحیفہ میں کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ دیت کے احکام، قیدی کو آزاد کرانا اور یہ کہ کافر کے بدلے مسلمان کو قتل نہ کیا جائے۔ آیت سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ اگر وحی کا کوئی بھی حصہ آپ چھپا دیتے تو ادائے رسالت کی ذمہ داری پوری نہ ہوتی، اور حجۃ الوداع میں شریک تمام صحابہ کرام نے اس بات کی شہادت دی کہ آپ نے اللہ کا پیغام بے کم و کاست لوگوں تک پہنچا دیا، اور امانت کو پورے طور پر ادا کیا جیسا کہ امام مسلم نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ نے خطبہ کے دوران لوگوں سے پوچھا، اور سب نے گواہی دی کہ ہاں آپ نے پیغام پہنچا دیا ، ، میں اللہ کا وعدہ کا ہے کہ وہ اپنے رسول کی حفاظت کرے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا، اللہ تعالیٰ نے ہر قدم پر ان کی حفاظت فرمائی۔ بخاری اور مسلم اور ابن ابی حاتم وغیرہم نے عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ اس آیت کے نزول کے قبل آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی نگرانی کی جاتی تھی، جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ نے خیمہ سے سر نکال کر کہا کہ اے لوگو ! واپس چلے جاؤ اب میری حفاظت اللہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت مکہ کے مشرکین سے کی، چنانچہ ہزار دشمنی کے باوجود وہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا بال بھی بیکا نہ کرسکے۔ شروع میں ان کے چچا ابوطالب کے ذریعہ حفاظت کروائی جو قریش کے مانے ہوئے سردار تھے، ابوطالب کے مرنے کے بعد مشرکین نے کچھ اذیت پہنچائی، لیکن اللہ نے انصارِ مدینہ کو آپ کی حفاظت کے لیے تیار کردیا، جنہوں نے آپ کی ہر طرح مدد کی، اور اپنی جانوں پر کھیل کر آپ کی حفاظت کی، اہل کتاب یا مشرکین میں سے جب بھی کسی نے آپ کو نقصان پہنچانا چاہا تو اللہ نے ان کی چالوں کو ناکام بنا دیا، یہودیوں نے جادو کیا تو اللہ نے معوذتین بطور دوا و علاج نازل فرما دیا، اور خیبر کے یہودیوں نے جب گوشت میں زہر ڈال کر کھلانا چاہا تو بذریعہ وحی اللہ نے آپ کو خبر کردی اور ان کے شر سے بچا لیا ۔ ماوردی نے اپنی کتاب اعلام النبوۃ میں نبی کریم کی عصمت و حفاظت کے زیر عنوان ایسے واقعات درج کیے ہیں جن میں دشمنوں نے آپ کو قتل کرنا چاہا، لیکن اللہ نے آپ کی حفاظت کی۔ اس ضمن میں ابوجہل، معمر بن یزید اور کلاہ بن اسد کے واقعات کا ذکر کیا ہے جنہوں نے آپ کو قتل کرنا چاہا، لیکن اللہ نے کہیں ان دیکھے بھیانک ازدہا اور کہیں خطرناک اونٹ کے ذریعہ ان دشمنوں کو ایسا مرعوب کردیا کہ انہیں بھاگنے کے لیے راستہ نہ ملا۔